سورة محمد - آیت 14

أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُم

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا وہ لوگ جو اپنے رب کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر ہیں ان لوگوں کی طرح ہوسکتے ہیں جنہیں اپنے اعمال بد میں خوبی نظرآتی ہے اور وہ ہوائے نفس پر چلتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ....: اس آیت میں مومن و کافر کے درمیان ایک اور فرق بیان فرمایا ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ ایمان اور عمل صالح والوں کو جنت میں داخل فرمائے گا اور کفر کرنے والوں کا ٹھکانا آگ ہو گا۔ ’’ بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ‘‘ ( اپنے رب کی طرف سے دلیل) سے مراد ایک تو انسانی فطرت میں رکھی ہوئی اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی توحید ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہونے والی ہدایت اور علم ہے جس کی وجہ سے مومن کو اپنے حق پر ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو اس یقین کے ساتھ کہ میں حق پر ہوں اور دشمن کے مقابلے میں لڑتا اور شہید ہوتا ہے تو اسی یقین کے ساتھ۔ وہ جس راستے پر چل رہا ہے اس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ فرمایا کیا یہ شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کے لیے اس کے برے اعمال خوش نما بنا دیے گئے ہیں، حتیٰ کہ رسول اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالنا بھی اسے اچھا کام نظر آتا ہے اور وہ وحی اور ہدایت کے نور سے منہ موڑ کر کفر و شرک اور اندھا دھند اپنی خواہش کی پیروی کی راہ پر چل نکلا ہے جس سے اس کا نورِ فطرت بھی بجھ چکا ہے؟ جواب ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہر گز برابر نہیں ہو سکتے۔ تو ظاہر ہے کہ ان کا انجام بھی کسی صورت ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہے، دیکھیے سورۂ رعد (۱۹)، سورۂ ص (۲۸) اور سورۂ جاثیہ (۲۱)۔ 2۔ احسن التفاسیر میں ہے: ’’حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو لوگ خالص اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کے پاس یہ سند (بینہ اور دلیل) ہے کہ انسان کو اور انسان کی سب ضرورتوں کو اس طرح اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو لائق تعظیم و عبادت بھی وہی وحدہٗ لا شریک لہ ہے اور جو لوگ اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں ان کے پاس کوئی شرعی یا عقلی دلیل نہیں ہے۔ بت پرستی جیسی بری چیز کو شیطان نے ان کی نظر میں اچھا کرکے دکھا دیا ہے، اس لیے وہ لوگ اسی شیطانی وسوسے کے سبب اپنی خواہش پر چلتے ہیں۔ اسی کو ’’ وَ اتَّبَعُوْا اَهْوَآءَهُمْ ‘‘ فرمایا۔‘‘ (مختصراً) 3۔ ’’ كَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ ‘‘ (اس کے لیے اس کے برے اعمال مزین کر دیے گئے) میں برے اعمال مزین کرنے والے کا ذکر مجہول رکھا ہے، کیونکہ آدمی کے لیے اس کے اعمال بد کو مزین کرنے والی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں جن میں اس کی خواہش نفس بھی ہے، انسانی اور جنی شیطان بھی اور اس کے اعمالِ بد کی نحوست بھی۔ فعل مجہول (مزین کر دیے گئے) میں مزین کرنے والی یہ سب اشیاء آ جاتی ہیں۔