سورة آل عمران - آیت 165

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب تمہیں ایک ایسی مسیبت پہنچی جس سے دگنی تم (دشمن کو) پہنچا چکے تھے (٥٦) تو کیا تم ایسے موقع پر یہ کہتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آگئی؟ کہہ دو کہ : یہ خود تمہاری طرف سے آئی ہے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتْكُمْ:یعنی احد میں تمہارے ستر آدمی شہید ہو گئے تو بدر میں تم نے ان کے ستر آدمی قتل اور ستر قید کیے تھے اور قیدی بھی مقتول کے حکم میں ہوتا ہے کہ جب گرفتار کرنے والے کی مرضی ہو اسے قتل کر ڈالے۔ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ: یعنی تمہارے گناہوں کی وجہ سے، یا خود تمہارے پسند کرنے کی وجہ سے۔ (فتح القدیر) پہلی صورت سے مراد یہ ہے کہ تمہاری اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی وجہ سے، جس کا ارتکاب تیر اندازوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر کیا۔ (قرطبی) دوسری صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تمہارے فدیہ کو اختیار کرنے کی وجہ سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں صحابہ کو اختیار دیا تھا کہ اگر تم فدیہ لینا چاہتے ہو تو اس کے بدلے میں آئندہ تمہارے ستر آدمی شہید ہوں گے، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے منظور کر لیا تھا، قرآن نے یہاں ﴿ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ﴾ کے الفاظ سے اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ [ ابن کثیر۔ طبری۔ أحمد :1؍30، ۳۱، ح : ۲۰۹ ]