وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
بلاشبہ ہم تمہارے گردوپیش کے علاقوں میں بہت سی بستیوں کو تباہ وبرباد کرچکے ہیں اور ہم نے طرح طرح سے ان کو سمجھایا تاکہ وہ باز آجائیں۔
1۔ وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى: انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسروں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہلِ مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم اپنے اردگرد کی بستیوں پر نظر ڈالو اور دیکھو کس قدر قومیں نیست و نابود کر دی گئیں اور کس طرح انھوں نے اپنے کرتوتوں کے بدلے پائے ہیں۔ اردگرد سے مراد احقاف ہے جو یمن کے حضر موت کے علاقے میں ہے، وہاں کے بسنے والے عادیوں کے انجام پر نظر ڈالو۔ تمھارے اور شام کے درمیان مقامِ حجر میں ثمود کا جو حشر ہوا اسے دیکھو، یمن کی قوم سبا کے انجام پر غور کرو، مدین جو تمھارے اور غزہ کے درمیان ہے، تم وہاں آتے جاتے رہتے ہو اور قومِ لوط کی بستیاں بھی تمھارے راستے میں پڑتی ہیں، ان سب کے واقعات عرب میں مشہور و معروف تھے۔ (ابن کثیر) 2۔ وَ صَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ: اس کی تفسیر دو طرح سے ہو سکتی ہے، ایک یہ کہ ہم نے ان بستیوں کے رہنے والوں کے لیے آیات کو پھیر پھیر کر اور کئی طرح سے کھول کر بیان کیا، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کفارِ مکہ کے متعلق فرما رہے ہیں کہ ہم نے ان کے لیے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کیا، تاکہ وہ کفر و شرک سے پلٹ آئیں۔ اس صورت میں کلام میں التفات ہے کہ پچھلے جملے ’’ وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى ‘‘ میں کفارِ مکہ کو مخاطب فرمایا، پھر’’ وَ صَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ‘‘ میں ناراضی کے اظہار کے لیے ان کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ فرمایا۔