وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ
جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت کا انکار کریں گے
وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءً ....: یعنی قیامت کے دن جب انھیں بتایا جائے گا کہ یہ لوگ تمھیں پکارتے رہے اور تم سے فریاد کرتے رہے تو وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں اس بات کی کوئی خبر نہیں کہ یہ ہمیں پکارتے رہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَ قَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ (28) فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ﴾ [ یونس : ۲۸، ۲۹ ] ’’اور جس دن ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے، پھر ہم ان لوگوں سے جنھوں نے شریک بنائے تھے، کہیں گے اپنی جگہ ٹھہرے رہو، تم اور تمھارے شریک بھی، پھر ہم ان کے درمیان علیحدگی کر دیں گے اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری تو عبادت نہیں کیا کرتے تھے۔ سو اللہ ہمارے درمیان اور تمھارے درمیان کافی گواہ ہے کہ بے شک ہم تمھاری عبادت سے یقیناً بے خبر تھے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ قصص (۶۳) اور سورۂ نحل (۸۶) مسیح علیہ السلام بھی اپنی عبادت کرنے والوں سے اپنے بے خبر ہونے کی صراحت فرما دیں گے (دیکھیے مائدہ : ۱۱۶، ۱۱۷) اور فرشتے بھی۔ (دیکھیے فرقان : ۱۷، ۸ا۔ سبا : ۴۰، ۴۱) بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی بھی پوجا کی گئی وہ پوجا کرنے اور پکارنے والوں کے شدید مخالف اور دشمن بن جائیں گے۔ دیکھیے سورۂ مریم (۸۱، ۸۲)۔