إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
(وہ وقت یاد کرو) جب تم منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اور رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں پکار رہے تھے، چنانچہ اللہ نے تمہیں (رسول کو) غم ( دینے) کے بدلے (شکست کا) غم دیا، تاکہ آئندہ تم زیادہ صدمہ نہ کیا کرو، (٥٠) نہ اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے، اور نہ کسی اور مصیبت پر جو تمہیں پہنچ جائے۔ اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔
1۔ اِذْ تُصْعِدُوْنَ: یہ بھاگتے ہوئے مسلمانوں کی کیفیت کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری پچھلی جماعت میں، جو ثابت قدم رہی تھی، تمھیں پکار رہے تھے کہ اے اللہ کے بندو ! میری طرف آ ؤ ، میں یہاں ہوں، مگر تم دور دوڑے جا رہے تھے اور کسی کو نہ مڑ کر دیکھتے تھے، نہ کسی کی سنتے تھے۔ 2۔ فَاَثَابَكُمْ غَمًّۢا بِغَمٍّ: یعنی تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمھیں غم پر غم پہنچایا، ایک شکست کا غم اور دوسرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ کا صدمہ، جو پہلے غم سے زیادہ سخت تھا، پس ”بِغَمٍّ“ کے معنی ’’عَلٰي غَمٍّ ‘‘ ہیں اور بعض نے باء کو سببیت کے لیے مانا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغموم کرنے کی وجہ سے تمھیں غم پہنچایا، مگر پہلا معنی زیادہ صحیح ہے۔( ابن کثیر، شوکانی) 3۔ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوْا: یعنی تمھیں دوہرے غم میں مبتلا کر دیا، تاکہ نہ تو تمھیں مال غنیمت کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم ہو اور نہ زخمی و شہید ہونے اور شکست کا غم ہو، کیونکہ متواتر غم خصوصاً بڑے غم کے آنے کے ساتھ پہلے غم ہلکے ہو جاتے ہیں اور انسان سختیاں برداشت کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔