سورة الزخرف - آیت 61

وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور بلاشبہ وہ (عیسی) قیامت کی ایک علامت ہے تو تم اس قیامت کے وقوع میں شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھی راہ ہے (٦)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ: ’’عِلْمٌ‘‘ سے مراد علم کا ذریعہ اور نشانی ہے، یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور پہلی مرتبہ دنیا میں آنا تو خاص بنی اسرائیل کے لیے ایک نشان تھا، دوبارہ آنا قیامت کا نشان ہو گا۔ ان کے نزول سے لوگ معلوم کریں گے کہ اب قیامت بالکل قریب آ لگی ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’اس سے مراد قیامت سے پہلے ان کا نزول ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا﴾ [ النساء : ۱۵۹ ] ’’اور اہلِ کتاب میں سے کوئی نہیں مگر اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہو گا۔‘‘ اس معنی کی تائید دوسری قراء ت ’’وَ إِنَّهُ لَعَلَمٌ لِلسَّاعَةِ ‘‘ سے بھی ہوتی ہے، یعنی وہ قیامت واقع ہونے کا ایک نشان اور دلیل ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا، ’’ وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ‘‘ یعنی قیامت کی ایک نشانی عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کا قیامت سے پہلے نکلنا ہے۔ ایسے ہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنھما ، ابوالعالیہ، ابو مالک، عکرمہ، حسن، قتادہ اور ضحاک رحمھم اللہ وغیرہ سے مروی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث آئی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام کے عادل و منصف امام بن کر نازل ہونے کی خبر دی۔‘‘ (ابن کثیر) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ، لَيُوْشِكَنَّ أَنْ يَّنْزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلاً، فَيَكْسِرَ الصَّلِيْبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيْرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَ يَفِيْضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتّٰی تَكُوْنَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِّنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا، ثُمَّ يَقُوْلُ أَبُوْ هُرَيْرَةَ وَاقْرَءُوْا إِنْ شِئْتُمْ: ﴿ وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا ﴾ ( النساء:۱۵۹))) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی ابن مریم علیہما السلام : ۳۴۴۸ ] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً قریب ہے کہ تم میں ابن مریم( علیھما السلام ) انصاف کرنے والا حاکم بن کر نازل ہو، پھر وہ صلیب توڑ دے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ ختم کرے گا اور مال عام ہو جائے گا، حتیٰ کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا، حتیٰ کہ ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو گا۔‘‘ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اور اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’اور اہلِ کتاب میں کوئی نہیں مگر وہ اس کی موت سے پہلے اس پر ضرور ایمان لائے گا اور وہ قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔‘‘ سورۂ نساء کی آیت (۱۵۸، ۱۵۹) کی تفسیر پر بھی نگاہ ڈال لیں۔ 2۔ ’’ وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ‘‘ کا مطلب یہ بھی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا وجود قیامت قائم ہونے کی نشانی اور دلیل ہے، کیونکہ وہ عام دستور کے خلاف باپ کے بغیر پیدا ہوئے، پھر وہ اللہ کے اذن سے مُردوں کو زندہ کرتے تھے۔ یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت کا نشان ہیں کہ وہ قیامت برپا کرنے پر بھی یقیناً قادر ہے۔ 3۔ بعض مفسرین نے ’’ هٗ ‘‘ ضمیر سے مراد قرآن لیا ہے۔ ابن عاشور نے فرمایا : ’’ وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ ‘‘ کا عطف ’’ وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ‘‘ پر ہے، یعنی یہ قرآن تمھارے لیے قیامت کا علم حاصل ہونے کا ذریعہ ہے، جس سے تمھیں اس کے قیام اور اس میں پیش آنے والے معاملات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ ابن کثیر نے قتادہ، حسن بصری اور سعید بن جبیر رحمھم اللہ کا یہی قول بیان کیا ہے کہ ’’ هٗ ‘‘ ضمیر سے مراد قرآن ہے۔ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا ....: یعنی قرآن تمھیں قیامت کے وقوع سے آگاہ کرتا ہے، اس لیے تم اس میں ہر گز شک نہ کرو اور میری پیروی کرو، یہ صراط مستقیم ہے جس کی میں تمھیں دعوت دیتا ہوں۔