أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں ہم نے دنیوی زندگی میں ان کے درمیان ان کی معیشت تقسیم کردی اور ایک کو کئی درجے دوسرے پربلند کیا تاکہ ایک دوسرے کو اپنے کام میں مدد کے لیے لے سکیں اور تیرے رب کی رحمت بہتر ہے سب چیزوں سے جو وہ سمیٹتے ہیں
1۔ اَهُمْ يَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ: یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے۔ ’’رَحْمَتَ ‘‘ کا لفظ اگرچہ عام ہے، جس میں ہر رحمت شامل ہے، مگر یہاں اس سے مراد نبوت و رسالت ہے، کیوں کہ ان کا اعتراض اسی پر تھا۔ ’’رَحْمَتَ رَبِّكَ ‘‘ (تیرے رب کی رحمت) کے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی بلندی کا اظہار ہو رہا ہے۔ یعنی کیا تیرے رب کی رحمت نبوت و رسالت کی تقسیم ان کے ہاتھوں میں ہے کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں؟ نہیں، یہ اختیار اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ یہ رحمت کسے عطا کرنی ہے۔ یہ جاہل اپنی حیثیت کو بھول کر اس قدر دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں کہ ان کا ہر شخص چاہتا ہے کہ اللہ کی کتاب اسی کو دی جائے، فرمایا : ﴿ بَلْ يُرِيْدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ اَنْ يُّؤْتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً ﴾ [ المدثر : ۵۲ ] ’’بلکہ ان میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دیے جائیں۔‘‘ حتیٰ کہ انھوں نے ایمان لانے کی شرط ہی نبوت دیا جانا ٹھہرائی، فرمایا : ﴿ وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَا اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۲۴ ] ’’اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے، یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔ اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے۔ عنقریب ان لوگوں کو جنھوں نے جرم کیے، اللہ کے ہاں بڑی ذلت پہنچے گی اور بہت سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ فریب کیا کرتے تھے۔‘‘ خلاصہ یہ کہ تیرے رب کی رحمت کی تقسیم اسی کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ کون اس کے قابل ہے۔ یہ کافر دنیا کے مال و جاہ کی وجہ سے ان لوگوں کو رسالت کے قابل سمجھ رہے ہیں جو اللہ کے ہاں ایک تنکے کا وزن نہیں رکھتے اور مال نہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کو نبوت کے لیے نااہل قرار دے رہے ہیں جو سب سے زیادہ پاکیزہ قلب و نفس والا، خاندانی شرافت میں سب سے بلند اور انسانی خوبیوں میں سب سے ممتاز ہے۔ 2۔ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا: یعنی نبوت و رسالت تو بہت ہی بلند چیز ہے، ہم نے تو دنیا میں ان کی روزی کی تقسیم کا اختیار بھی ان کو یا کسی دوسرے کو نہیں دیا، بلکہ اسے خود تقسیم کیا ہے، حالانکہ وہ ہمارے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں، تو قرآن نازل کرنے کا اختیار انھیں کیسے دے سکتے ہیں!؟ 3۔ وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ: اس مختصر سے جملے میں اللہ تعالیٰ نے کئی حقیقتیں بیان فرما دی ہیں۔ پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صلاحیتوں اور روزیوں کی تقسیم میں برابری نہیں رکھی، بلکہ ان میں درجات رکھے ہیں۔ کسی کو غنی بنا دیا کسی کو فقیر، کوئی ذہین ہے کوئی کند ذہن، کوئی بے وقوف ہے کوئی عقل مند اور کوئی اس سے بڑھ کر عقل مند، کوئی طاقتور ہے کوئی کمزور، کوئی خادم ہے کوئی مخدوم، کوئی مالک ہے کوئی مملوک، کوئی اندھا ہے کوئی بینا، کوئی باعزت ہے کوئی ذلیل اور کوئی حاکم کوئی محکوم۔ کمیونسٹوں کا نعرہ کہ ہم تمام لوگوں میں دولت کی مساوات پیدا کریں گے، سخت دھوکا تھا۔ یہ اللہ کے فیصلے کے خلاف ہے، نہ ایسا ہو سکتا ہے نہ کمیونسٹوں سے ہو سکا۔ رزق اور اللہ تعالیٰ کی دوسری عنایتوں کی عطا میں یکسانیت کے بجائے درجات کی کمی بیشی ناقابل تردید حقیقت ہے۔ دنیا میں اس کا مقصد آزمائش ہے۔ (دیکھیے انعام : ۱۶۵) درجات کا یہ فرق آخرت میں اس سے بھی زیادہ ہو گا۔ دیکھیے سورۂ نحل (۷۱)، بنی اسرائیل (۲۱) اور سورۂ روم (۲۸)۔ دوسری حقیقت یہ کہ یہ کمی بیشی اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے، کسی دوسرے کا اس میں کوئی دخل نہیں اور اللہ تعالیٰ نے جسے جس درجے میں رکھا ہے اس پر قناعت کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں۔ کسی کو خوبصورت بنایا یا بدصورت، قوی بنایا یا ضعیف، عقل مند بنایا یا بے وقوف، آنکھیں عطا کر دیں یا نابینا کر دیا، ہر ایک کو اسی طرح رہنا پڑے گا جس طرح خلاّقِ عالم نے اس کے لیے طے کر دیا ہے۔ 4۔ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا: ’’اِتَّخَذَ فُلَانٌ فُلَانًا سُخْرِيًّا‘‘ یعنی فلاں نے فلاں کو اپنا تابع بنا لیا، یا اپنے کام یا خدمت میں لگا لیا۔ یہ تیسری حقیقت ہے، کسی مال دار کا مال یا دنیوی عز و جاہ اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے اور نہ ہی کسی فقیر کا فقر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے، بلکہ درجات کا یہ تفاوت اللہ تعالیٰ نے اس لیے رکھا ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت رہے اور وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں، کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام معطل ہو جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے ایک شخص کو مال نہیں دیا، مگر اسے کسی کام کی صلاحیت اور قوت بخش دی، دوسرے کو کمزور بنا دیا جو خود نہ کام کر سکتا ہے نہ محنت، مگر اسے دولت بخش دی جس کے ساتھ وہ ان لوگوں کو مزدور رکھ سکتا ہے جن کے پاس مال نہیں۔ اسی طرح کسی کے پاس ایک ہنر ہے دوسرے کے پاس دوسرا، دونوں ایک دوسرے سے کام لیتے ہیں۔ اس میں ضروری نہیں کہ کام لینے والا مرتبے میں بھی اس سے اونچا ہو جس سے کام لے رہا ہے۔ کتنے ہی ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے کمالات کے مالک ان لوگوں کے پاس ملازمت کر رہے ہیں جو مطلق جاہل ہیں۔ یہاں کوئی بڑے سے بڑا ایسا نہیں جو چھوٹے سے چھوٹے کا محتاج نہ ہو، حتیٰ کہ بادشاہ بھی حجام، باورچی اور دوسرے خدمت گاروں کا محتاج ہے اور خدمت گار اس کے محتاج ہیں، اسی سے نظامِ عالم چل رہا ہے۔ اگر سب برابر ہو جائیں تو وہ ایک قدم نہیں چل سکتا۔ 5۔ وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ: ’’رَحْمَتُ رَبِّكَ ‘‘ کے متعلق دو قول ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد نبوت ہے، یعنی نبوت و رسالت کا شرف تو دنیوی مال و جاہ اور ساز و سامان سے کہیں اعلیٰ ہے۔ جب دنیا کی دولت اس نے ان کی تقسیم پر نہیں رکھی تو رسالت ان کی تجویز پر کیسے دے گا!؟ دوسرا یہ کہ اس سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں، یعنی یہ لوگ دنیا کے جس فانی مال و متاع اور عز و جاہ کو سمیٹنے کی تگ و دو میں دن رات لگے ہوئے ہیں، تیرے رب کی رحمت یعنی آخرت کی دائمی نعمتیں ان سے بدرجہا بہتر ہیں۔