وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَٰذَا الْقُرْآنُ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ
اورانہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا؟
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ....: پچھلی آیت میں ان کے قرآن پر طعن کا ذکر تھا تو اس آیت میں قرآن لانے والے پر اعتراض کا ذکر ہے۔ کفار پہلے تو کسی بشر کا رسول ہونا ہی ماننے کے لیے تیار نہ تھے، ان کا مطالبہ تھا کہ رسول فرشتہ ہونا چاہیے۔ جب ناقابل تردید دلائل سے انھیں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام رسول بشر ہی بھیجے ہیں، تمھارے جد امجد ابراہیم و اسماعیل علیھما السلام اور دوسرے پیغمبر، مثلاً موسیٰ علیہ السلام ، سب بشر ہی تھے، تو فرشتہ رسول کا مطالبہ چھوڑ کر یہ مطالبہ داغ دیا کہ یہ قرآن دو بستیوںمیں سے کسی عظیم آدمی پر کیوں نازل نہیں کیا گیا۔ دو بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہیں، کیونکہ ان کی مرکزی بستیاں یہ دو ہی تھیں۔ ’’ عَظِيْمٍ ‘‘ سے مراد دنیاوی مال و دولت اور جاہ و مرتبہ کے لحاظ سے عظیم ہے۔ مفسرین مکہ کے ان عظیم آدمیوں میں سے ولید بن مغیرہ یا عتبہ بن ربیعہ کا اور طائف کے عظماء میں سے عروہ بن مسعود، حبیب بن عمرو یا کنانہ بن عبد یا لیل یا اس قبیل کے دوسرے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں۔ کفار کے خیال میں مال کی کثرت اور قوم کے سردار ہونے کی وجہ سے یہ لوگ نبوت کے حق دار تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مال و جاہ کی کمی کی وجہ سے اس کے اہل نہیں تھے، کیونکہ آپ کے پاس دولت کی کثرت تھی نہ کسی قبیلے کی سرداری۔ یہ کفار کی جہالت اور سخت نادانی تھی کہ انھوں نے نبوت کے منصب کے لیے مال و جاہ کو شرط قرار دیا۔