لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ
آسمانوں اور زمین کی سلنطت اللہ ہی کے لیے اور وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے
1۔ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ: اس سے پہلی آیت میں انسان کا ذکر فرمایا کہ اگر اسے اس کے اپنے اعمالِ بد کے نتیجے میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو انسان بہت ناشکرا ہے، وہ فوراً اللہ تعالیٰ کا شکوہ شروع کر دیتا ہے کہ اس نے مجھ سے نعمت چھین لی اور مجھ پر ظلم کیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ اس کی طرف ظلم کی نسبت سے بڑا ظلم کوئی نہیں، کیونکہ ایک تو انسان کو پہنچنے والی مصیبت اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے، دوسرے اللہ تعالیٰ آسمان و زمین یعنی پوری کائنات اور اس میں موجود ہر نعمت کا بادشاہ اور مالک ہے۔ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اپنی جو نعمت جسے چاہے دیتا ہے، جسے چاہے نہیں دیتا یا چھین لیتا ہے۔ بندے پر اس کے اعمال کے نتیجے میں جو مصیبت آئی ہے زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی کوئی نعمت نہیں دی، یا آئندہ کے لیے روک لی ہے، مثلاً صحت، دولت یا ایمان وغیرہ۔ ظلم تو تب ہوتا جب وہ اس کی ملکیت والی کوئی چیز اسے نہ دیتا یا اس سے لے لیتا۔ جب ہر چیز اس کی ملکیت ہے تو اس کی مرضی، جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے، کسی کے پاس شکوے اور ناشکری کا کیا موقع ہے۔ ایمان کی نعمت سے نوازنا بھی اس کی مرضی پر موقوف ہے، وہ چاہتا تو سب کو یہ نعمت دے دیتا مگر یہ نعمت بھی وہ اسی کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے سے تقدیر کے بہت سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں اور آدمی اللہ تعالیٰ کے شکوے، اس کی ناشکری اور اسے ظالم کہنے سے بچ جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَهُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ يُّدْخِلُ مَنْ يَّشَآءُ فِيْ رَحْمَتِهٖ وَ الظّٰلِمُوْنَ مَا لَهُمْ مِّنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍ ﴾ [ الشورٰی : ۸ ] ’’اور اگر اللہ چاہتا تو انھیں ایک ہی امت بنا دیتا اور لیکن وہ اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور جو ظالم ہیں ان کے لیے نہ کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار۔‘‘ 2۔ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا....: یہ اس بات کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور جو چاہے دیتا ہے، چنانچہ وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یا لڑکے لڑکیاں دونوں عطا کر دیتا ہے اور جسے چاہے مرد ہو یا عورت عقیم (بانجھ) بنا دیتا ہے، کسی کو اس پر اعتراض یا شکوے کا کوئی حق نہیں۔ 3۔ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ: مخلوق کو نعمت عطا کرنے میں یہ تفاوت اندھی تقسیم نہیں بلکہ اس لیے ہے کہ وہ ہر چیز کا علم اور پوری قدرت رکھنے والا ہے، اس کا ہر فعل اس کے علم و قدرت کے تحت ہے اور اسی علم و قدرت کے ساتھ اس نے بعض کو اولاد سے محروم رکھا، کسی کو ہدایت سے اور کسی کو لڑکی یا لڑکے یا دونوں کی نعمت سے نواز دیا، کسی کو ہدایت کے تمام مرتبوں سے اونچے مرتبے نبوت سے نواز دیا، جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے اور یہ سب کچھ اس کی مشیت کے تحت ہے، فرمایا : ﴿اَللّٰهُ يَجْتَبِيْ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ ﴾ [ الشورٰی : ۱۳ ] ’’اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔‘‘ 4۔ اس آیت میں یہ حقیقت واشگاف الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی دنیا کے نام نہاد بادشاہوں، جباروں اور سرداروں کے حوالے نہیں کر دی گئی اور نہ ہی اس میں کسی نبی یا ولی، داتا، دستگیر یا دیوی دیوتا کا کوئی حصہ ہے، اس کا مالک اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ کتنے جابر بادشاہ اور سپہ سالار، کتنے انبیاء و اولیاء اور کتنے ماہر ڈاکٹر اور حکیم اولاد سے محروم رہے، کتنے لڑکے کو ترستے رہے اور کتنے لڑکی کی خواہش دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اگر مشرکین اس حقیقت کو سمجھ لیں تو کبھی شرک کی حماقت نہ کریں۔ 5۔ ’’ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا ‘‘ میں لڑکیوں کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ قرار دیا ہے۔ جو لوگ لڑکیوں کو نحوست یا عار کا باعث سمجھتے ہیں انھیں ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے اور کسی ایسے جوڑے کے احساسات معلوم کرنے چاہییں جنھیں لڑکی بھی عطا نہیں ہوئی۔