وَيَعْلَمَ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِنَا مَا لَهُم مِّن مَّحِيصٍ
اور ہماری آیتوں میں جھگڑا کرنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کے لیے کوئی جائے فرار نہیں
وَ يَعْلَمَ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ اٰيٰتِنَا....: یہاں سوال ہے کہ ’’ يَعْلَمَ‘‘ پر نصب کیوں ہے اور ’’واؤ‘‘ کے ساتھ عطف کس پر ڈالا گیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس جملے کا عطف ایک محذوف جملے پر ہے، جس میں اس بات کی علت بیان کی گئی ہے کہ ہوائیں جہازوں کے لیے کبھی موافق، کبھی شدید ترین مخالف اور کبھی ساکن کیوں ہوتی ہیں اور ’’ يَعْلَمَ ‘‘ پر نصب ’’لَامِ كَيْ‘‘ کی وجہ سے آیا ہے جس کے بعد ’’أَنْ‘‘ ناصبہ مقدر ہوتا ہے۔ گویا پوری عبارت اس طرح ہے : ’’ اَللّٰهُ فَعَلَ ذٰلِكَ لِيَعْتَبِرَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ لِيَعْلَمَ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ آيَاتِنَا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے کشتیوں اور ہواؤں کا یہ معاملہ اس لیے ذکر فرمایا ہے تاکہ مومن اس سے عبرت حاصل کریں اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلانے کے لیے جھگڑا کرتے ہیں وہ جان لیں کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بھاگ کر جانے کی کوئی جگہ نہیں۔ ہو سکتا ہے یہ جاننے کے بعد وہ اللہ کی آیات پر ایمان لے آئیں۔ بعض مفسرین نے محذوف جملے کے لیے اس سے مختلف الفاظ بھی ذکر فرمائے ہیں، مقصد سب کا یہی ہے کہ ’’وَ يَعْلَمَ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ اٰيٰتِنَا‘‘ میں گزشتہ چیزوں کی علت بیان ہوئی ہے۔ علت والے جملے کے حذف کی قرآن مجید میں کئی مثالیں ملتی ہیں، جیسے فرمایا : ﴿وَ لِنَجْعَلَهٗ اٰيَةً لِّلنَّاسِ ﴾ [ مریم : ۲۱ ] ’’اور تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے بہت بڑی نشانی بنائیں۔‘‘اور جیسے فرمایا: ﴿وَ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَ لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ ﴾ [ الجاثیۃ : ۲۲ ] ’’اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو اس نے کمایا۔‘‘