وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ
اور وہی خدا تو ہے کہ جب وہ خشک موسم میں لوگ بارش کی طرف سے بالکل ناامید اور مایوس ہوجاتے ہیں تو وہ اپنی رحمت سے بادلوں کو پھیلا دیتا ہے اور مینہ برسنا شروع ہوجاتا ہے وہی کارساز حقیقی سزاوار حمد وتقدیس ہے (١٠)۔
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا: ’’ الْغَيْثَ ‘‘ وہ بارش جو خشک سالی کے بعد آئے، کیونکہ اس کے ذریعے سے لاچار اور بے بس انسانوں اور جانوروں کی مدد ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ فِيْهِ يُغَاثُ النَّاسُ﴾ [ یوسف : ۴۹ ] ’’پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں پر بارش ہوگی۔‘‘ یہ بیان کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کی ضرورت سے زیادہ نہیں دیتا، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ان کے تقاضے کے مطابق رزق میں اضافہ ان کی سرکشی اور نظامِ عالم کی خرابی کا باعث ہے، یہ ذکر فرمایا کہ اگر انھیں بارش کی ضرورت ہو، جس پر تمام جانداروں کی زندگی کا دارو مدار ہے، خواہ انسان ہوں یا حیوان، چرند پرند ہوں یا درندے یا حشرات الارض ہوں تو وہ انھیں اپنی رحمت سے ضرور نوازتا ہے۔ چنانچہ فرمایا، اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے۔ 2۔ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا: ’’ قُنُوْطٌ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حم السجدہ کی آیت (۴۹) کی تفسیر۔ اس کے بعد کہ وہ ناامید ہو چکے ہوتے ہیں اور اس ناامیدی کے آثار ان کے چہروں پر ظاہر ہو چکے ہوتے ہیں، یعنی وہ ایک مدت کی قحط سالی کی وجہ سے بارش برسنے سے ناامید ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس آیت میں مادہ پرستوں کا رد بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ دنیا میں اسباب کے مطابق سب کچھ خود بخود ہو رہا ہے، نہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور نہ کوئی اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے والا ہے۔ رد اس طرح ہے کہ ان لوگوں کے کہنے کے مطابق طبعی طور پر سورج کی تپش کے ساتھ سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں جو بادلوں کی صورت اختیار کرتے اور زمین پر برستے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر ایک زمین، ایک سمندر، ایک سورج اور تمام اسباب یکساں ہونے کے باوجود ہر جگہ ہمیشہ ایک جیسی بارش کیوں نہیں ہوتی؟ یقیناً یہ سب کچھ ان تمام چیزوں کے مالک کے اختیار میں ہے، وہ جہاں چاہتا ہے سالہا سال تک قحط اور خشک سالی مسلط کر دیتا ہے، پھر جب چاہتا ہے دوبارہ بارش کا سلسلہ شروع فرما دیتا ہے۔ 3۔ وَ يَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ: یعنی بارش کی صورت میں اپنی رحمت میدانوں، پہاڑوں، جنگلوں اور سمندروں میں ہر جگہ پھیلا دیتا ہے، ہوا کے کاندھے پر سوار اتنے وزنی بادلوں سے زمین کو بھر دینے والی بارش برساتا ہے، جنھیں پوری مخلوق بھی اٹھانا چاہے تو نہ اٹھا سکے اور سب مل کر اس زمین پر چھڑکاؤ ہی کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں۔ پھر ہر طرف ندی نالے، تالاب، سبزہ، پودے، درخت، کھیت، مینڈک، جھینگر، حشرات الارض اور دوسرے جاندار پھیل جاتے ہیں۔ اس بارش کے ساتھ اتنی سخت زمین سے، جو کدالوں کے ساتھ کھودنی مشکل ہوتی ہے، ریشم سے نرم کونپلیں نکال دیتا ہے اور اس بارش کے ساتھ درختوں کے سخت تنوں سے، جنھیں تراشنے والے اوزار مشکل سے تراش سکیں، پرندوں کی زبانوں سے بھی نازک شگوفے نکال دیتا ہے، پھر کس قدر جاہل اور فریب خوردہ ہیں وہ لوگ جو مردوں کے قبروں سے زندہ ہونے کو نہیں مانتے۔ (بقاعی) 4۔ وَ هُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ: یعنی کائنات کے تمام معاملات کا متولی اور ذمہ دار وہی ہے اور ہر خوبی کا مالک بھی وہی ہے۔