سورة فصلت - آیت 50

وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مگر جونہی ہم اس کو تکلیف کا وقت گزرجانے کے بعد اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میں نہیں خیال کرتا کہ قیامت کبھی قائم ہوگی لیکن اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایابھی گیا تومیرے لیے اس کے ہاں بہتری ہے سوہم کفر کرنے والوں کو ضرور بتادیں گے کہ وہ کیا عمل کرتے رہے ہیں اور ہم انہیں سخت ترین عذاب کا مزہ چکھائیں گے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا....: یعنی ایک طرف وہ ناامیدی کہ شر کے چھو جانے ہی سے آخری حد تک ناامید ہوتا ہے، دوسری طرف یہ احسان فراموشی کہ مصیبت کے بعد کسی رحمت کا ذائقہ چکھتے ہی پھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے لاتعلق ہو جاتا ہے، حالانکہ نہ وہ شر اور مصیبت دائمی تھی نہ اس دنیوی نعمت کو دوام ہے۔ پھر یہ نعمت اس کی محنت کا نتیجہ نہیں کہ اس پر پھول جائے، بلکہ یہ محض ہماری عطا ہے۔ ’’ رَحْمَةً مِّنَّا ‘‘ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۹، ۱۰) کی تفسیر۔ لَيَقُوْلَنَّ هٰذَا لِيْ: یعنی کافر آدمی دنیوی نعمت کا ذائقہ چکھتے ہی تین کفریہ باتیں کہے گا، اس کے دل میں یہی باتیں ہوں گی اور زبان سے بھی یہی کہے گا۔ پہلی بات یہ کہ یہ نعمت میری جدوجہد کا نتیجہ اور میرا حق ہے، جیسا کہ فرعون کے لوگ کہتے تھے (دیکھیے اعراف : ۱۳۰، ۱۳۱) اور جیسا کہ قارون نے کہا تھا (دیکھیے قصص : ۷۸) حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صریح ناشکری اور احسان فراموشی ہے۔ وَ مَا اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىِٕمَةً وَّ لَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَلْحُسْنٰى: ان دونوں باتوں کی تفصیل سورۂ کہف کی آیت (۳۶) کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔