سورة فصلت - آیت 37

وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ۚ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

رات اور دن اور سوج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا اگر تم فی الواقع اسی کی عبادت کرنے والے ہو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مِنْ اٰيٰتِهِ الَّيْلُ وَ النَّهَارُ....: اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کو سب سے اچھی بات قرار دیا، اب اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت کے لیے چند اور چیزیں بطور دلیل ذکر فرمائیں، جن میں سے بعض آسمان سے تعلق رکھتی ہیں اور بعض زمین سے اور واضح فرمایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ 2۔ انسان کو نظر آنے والی اشیا میں سے سب سے عظیم اور سب سے روشن چیزیں سورج اور چاند ہیں، اس لیے بہت سے لوگ انھی کو رب تعالیٰ سمجھ بیٹھے۔ بعض نے انھیں اللہ تعالیٰ کا مظہر سمجھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور ان کی پرستش اور انھیں سجدہ کرنے لگے، جیسے صابی اور پارسی لوگ ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی قوم شرک کی متعدد صورتوں میں مبتلا تھی، وہ دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ سورج، چاند اور ستاروں کی بھی پرستش کرتی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام نے نہایت حکمت کے ساتھ ان کا بے اختیار ہونا اور رب نہ ہونا واضح فرمایا۔ ( دیکھیے سورۂ انعام : ۷۶ تا ۸۲) زیر تفسیر آیات سے ان مشرکین کا رد مقصود ہے۔ چنانچہ بتایا کہ رات دن اور سورج چاند اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی قدرت کی نشانیوں اور دلیلوں میں سے ہیں۔ سورج اور چاند سے پہلے رات اور دن کا ذکر اس لیے فرمایا کہ رات کو سورج کا چھپنا اور چاند کا نکل آنا اور دن کو چاند کا چھپنا اور سورج کا نمودار ہو جانا صاف دلالت کر رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی رب یا رب تعالیٰ کا مظہر نہیں کہ اس کی صورت میں وہ خود ظاہر ہو رہا ہے، بلکہ یہ دونوں مجبور اور لاچار پیدا کیے گئے ہیں، جو رب تعالیٰ کے فرمان کے تحت مسخر ہیں اور اپنی گردش اور طلوع و غروب میں اس کے حکم کے پابند ہیں۔ اگر یہ خود رب ہوتے تو دن کے وقت کا سورج رات اور چاند کو نہ آنے دیتا، اسی طرح رات دن کے مقابلے میں ڈٹ جاتی اور اسے قدم نہ رکھنے دیتی، مگر ان سب کا بے اختیار ہو کر گردش کرتے چلے جانا اور ان میں کبھی کسی حادثے کا رونما نہ ہونا اکیلے رب تعالیٰ کے وجود کی دلیل ہے، جو ہر چیز کو اپنی حکمت کے تحت چلا رہا ہے۔ 3۔ رات دن کے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہونے اور ان آیات کے حوالے کے لیے جن میں اس کی تفصیل ہے، دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۱۲) کی تفسیر۔ لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ....: اس سے معلوم ہوا کہ مخلوق کو سجدہ کرنا حرام ہے، سجدہ صرف اللہ کے لیے ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا۔ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ: کچھ لوگ عقلی ڈھکوسلے گھڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے واسطے سے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ مشرکین کہتے تھے : ﴿ مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَا اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى ﴾ [ الزمر : ۳ ] ’’ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔‘‘ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، اگر تم واقعی اللہ ہی کی عبادت کرتے ہو تو ان واسطوں کی کیا ضرورت ہے، سیدھے اسی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے؟ 6۔ سجدۂ عبادت اور سجدۂ تعظیم میں فرق اور سجدۂ تعظیم کی حرمت کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۳۴) اور سورۂ یوسف (۱۰۰)۔