وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام اور زمین سما جائیں۔ وہ ان پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
1۔ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ : اہل ایمان کو ان اعمال صالحہ کی طرف جلدی کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا سبب بنتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نیک اعمال سر انجام دینے میں جلدی کر لو، ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے جو اندھیری رات کے مختلف ٹکڑوں کی طرح ( یکے بعد دیگرے) رونما ہوں گے۔ صبح کو آدمی مومن ہو گا اور شام کو کافر ہو گا اور شام کو مومن ہو گا اور صبح کو کافر، وہ اپنے دین کو دنیا کے معمولی سامان کے عوض بیچ دے گا۔‘‘ [ مسلم، الإیمان، باب الحث علی المبادرۃ....: ۱۱۸، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ] 2۔ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ: یعنی جس طرح سود خور کافر کے لیے دوزخ تیار کی گئی ہے اسی طرح فرماں بردار متقی کے لیے جنت تیار کی گئی ہے اور پھر جنت کے متعلق ﴿ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ﴾ فرما کر اس کی وسعت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : ’’اے محمد ! یہ بتائیں کہ جنت کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے تو آگ کہاں ہے ؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ بتا ؤ کہ پہلے رات تھی، پھر نہیں رہی تو کہاں چلی گئی؟‘‘ اس نے کہا : ’’ اللہ بہتر جانتا ہے ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ پھر اللہ تعالیٰ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘ [صحیح ابن حبان : ۱۰۳۔ مستدرک حاکم:1؍92، ح : ۱۰۳ و صححہ و وافقہ الذہبی ] حقیقت یہ ہے کہ جنت اور جہنم کے جو اوصاف قرآن و حدیث میں جس طرح مذکور ہیں اسی طرح ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے، خواہ ہماری عقل و ذہن کی رسائی ان تک نہ ہو اور یہی نہیں، آخرت کے تمام معاملات کا یہی حال ہے۔