يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مت کھاؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو (٤٤)
1۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا: شاید سود کا ذکر یہاں ( جنگ احد کے تذکرے میں) اس لیے فرمایا کہ اوپر (آیت ۱۲۲ میں) ذکر ہوا جہاد میں نامردی کا اور سود کھانے سے نامردی آتی ہے دو سبب سے، ایک یہ کہ مال حرام کھانے سے توفیق اطاعت کم ہوتی ہے اور بڑی اطاعت جہاد ہے اور دوسرے یہ کہ سود لینا کمال بخل ہے۔ چاہیے تھا کہ اپنا مال جتنا دیا تھا لے لیتا، درمیان میں کسی کا کام نکل جاتا، یہ بھی مفت نہ چھوڑے، اس کا جدا بدلہ چاہے، تو جس کو مال پر اتنا بخل ہو وہ جان کب دینا چاہے گا۔ (موضح) پھر انصار کے یہود کے ساتھ سودی لین دین کے تعلقات تھے اور احد میں منافقینِ یہود کی وجہ سے نقصان پہنچا تھا، گویا اس کو حرام قرار دے کر ان تعلقات کو ختم کر دیا۔ 2۔ اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً: اس سے بعض لوگوں نے سود مرکب کو حرام اور سود مفرد کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہاں اس زمانے کے سود خوروں کی سنگ دلی بیان ہو رہی ہے، جو آج بھی موجود ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں بہت سے لوگ دوسروں کو سودی قرض دیا کرتے، جب قرض کی میعاد ختم ہو جاتی تو مقروض سے کہتے، قرض ادا کرو ورنہ سود میں اضافہ کرو۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں میعاد میں توسیع کر دی جاتی اور سود کی مقدار میں اضافہ کر دیا جاتا۔ اس طرح کچھ عرصے کے بعد سود کی مقدار اصل زر سے بھی کئی گنا زیادہ ہو جاتی اور یہ سود تجارتی اور غیر تجارتی دونوں طرح کا ہوتا تھا، جیسا کہ اس آیت کی تفسیر کے تحت تابعین نے تصریح کی ہے۔ سودی کاروبار کی اس بھیانک صورت کی طرف قرآن نے ”اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً“ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ مرکب سود حرام اور سادہ جائز ہے۔ اسلام میں ہر قسم کا سود حرام ہے، صرف قرض کی ایک صورت جائز ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۲۷۹ ] ’’اور اگر تم توبہ کر لو تو تمھیں اپنے اصل مال لینے کی اجازت ہے، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘