سورة غافر - آیت 67

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ مِن قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ پروردگار جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے) پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم کو طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکالتا ہے پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو اس کے بعد تمہارا جینا اس لیے ہوتا ہے کہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو پھر تم میں سے کوئی ان منزلوں سے پہلے مرجاتا ہے اور (کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے) تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کرلے اور تاکہ تم عقل وفکر سے کام لو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ....: یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور قیامت قائم ہونے کی دلیل ہے۔ اس کی تفسیر سورۂ حج (۵) اور سورۂ مومنون (۱۲ تا ۱۴) میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ البتہ یہاں چند الفاظ کی مختصر تشریح کی جاتی ہے۔ 2۔ ’’ ثُمَّ لِتَبْلُغُوْااَشُدَّكُمْ ‘‘اور’’ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُيُوْخًا‘‘دونوں میں ’’لامِ کے‘‘ فعل محذوف کے متعلق ہے جو خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے : ’’ثُمَّ يُرَبِّيْكُمْ‘‘ یعنی پھر وہ تمھاری پرورش کرتا رہتا ہے (تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ) یا ’’ثُمَّ يُبْقِيْكُمْ ‘‘ ہے، یعنی پھر وہ تمھیں باقی رکھتا ہے (تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، پھر تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ)۔ وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ: یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے (اسقاط کی صورت میں)، کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہلے اور کوئی بوڑھا ہونے سے پہلے فوت کر لیا جاتا ہے۔ وَ لِتَبْلُغُوْا اَجَلًا مُّسَمًّى: اس ’’لِتَبْلُغُوْا ‘‘ کا تعلق پہلے ’’ لِتَبْلُغُوْا ‘‘ کے لیے مقدر فعل کے ساتھ نہیں ہو گا، بلکہ اس کے لیے الگ فعل مقدر ماننا پڑے گا، مثلاً ’’وَ فَعَلَ لَكُمْ ذٰلِكَ لِتَبْلُغُوْا أَجَلًا مُّسَمًّي‘‘ ’’اور اس نے تمھارے ساتھ یہ معاملہ اس لیے کیا ہے کہ تم موت کے اس وقت تک پہنچ جاؤ جو تم میں سے ہر ایک کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔‘‘ یعنی کوئی علقہ بننے تک، کوئی مضغہ یا عظام بننے تک، کوئی ولادت تک، کوئی لڑکپن تک، کوئی جوانی تک اور کوئی بڑھاپے تک پہنچ کر مرے۔ (ابن جزی) وَ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ: یعنی اللہ تعالیٰ تمھیں زندگی کے ان مختلف مراحل سے اس لیے گزارتا ہے کہ جب تم اس حیرت انگیز نظام پر غور کرو تو سمجھ جاؤ کہ کوئی خالق ہے جس نے یہ سب کچھ پیدا فرمایا ہے اور وہ ایک ہی ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ورنہ کائنات کے اس سلسلے میں ہر چیز کی ایک دوسرے کے ساتھ نہ اتنی زبردست موافقت و مناسبت ہوتی اور نہ ہی یہ نظام ایک لمحے کے لیے چل سکتا یا باقی رہ سکتا۔ اور تاکہ یہ بھی سمجھ جاؤ کہ یہاں ہر مرحلے کے بعد اگلا مرحلہ ہے، مٹی اور نطفے سے پیدا کرنے والے اور اسے ایک وقت تک پہنچانے کے بعد قبض کر لینے والے کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ وہ تمھیں دوبارہ زندہ کرلے اور تمھارا حساب لے۔ یعنی اگر غور کرو تو پیدائش کے اس سلسلے سے اللہ تعالیٰ کا وجود، اس کی وحدانیت اور تمھیں دوبارہ زندہ کرنے پر اس کا قادر ہونا آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’یعنی اتنے احوال تم پر گزرے، شاید ایک حال اور بھی گزرے (اور) وہ (ہے) مر کر جینا۔‘‘ (موضح)