لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ
(اے پیغبر) تمہیں اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں۔ *
1۔ لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ: اس آیت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ بندے کو اختیار نہیں، ہر قسم کے اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ (موضح) بئرِ معونہ پر جن قبائل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر صحابہ کو دھوکے سے قتل کیا تھا، ان کے خلاف اور جنگِ احد میں مشرکین کی طرف سے جو لوگ پیش پیش تھے، ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے لے کر دعائے قنوت شروع کی۔ بئر معونہ والا واقعہ بخاری میں موجود ہے۔ [ بخاری، المغازی، باب غزوۃ الرجیع....: ۴۰۸۶ ] عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سر اٹھاتے تو ’’ سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهٗ رَبَّنَا وَ لَكَ الْحَمْدُ ‘‘ کے بعد یہ دعا کیا کرتے : ’’اے اللہ ! فلاں، فلاں اور فلاں پر لعنت فرما۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ ﴾ ’’تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب :﴿لیس لک من الأمر شیء﴾ : ۴۰۶۹ ] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام لوگوں کو جن کا نام لے کر آپ لعنت فرماتے تھے، توبہ کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مسلمان ہو گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مختار کل اور عالم الغیب ذات صرف اللہ وحدہٗ لا شریک لہ ہی ہے، ورنہ آپ اپنے عزیز چچا کو ضرور مسلمان کر لیتے اور احد اور بئر معونہ میں ظلم کرنے والوں کو ضرور ملعون کروا لیتے۔ 2۔ ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ قنوت نازلہ میں کسی کافر کا نام لے کر لعنت کرنا جائز نہیں، کیا خبر اللہ تعالیٰ اسے توبہ کی توفیق بخش دے۔ ہاں، عام کفار پر لعنت درست ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔