وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ
اتنے میں آل فرعون میں سے ایک مومن شخص جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا (٦) آکرکہنے لگا کیا تم ایک شخص کو محض اس بناپرقتل کرڈالو گے وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے ؟ حالانکہ وہ تمہارے رب کی طف سے تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کرآیا ہے اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کاوبال اسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہے تو جس عذاب کا وہ تمہیں وعدہ دے رہا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تمہیں پہنچ کررہے گا بلاشبہ اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزرجانے والا اور بہت جھوٹا ہو
1۔ وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ....: موسیٰ علیہ السلام نے ہر متکبر سے اللہ کی پناہ مانگی جو یوم حساب پر ایمان نہ رکھتا ہو، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرماتے ہوئے ان کی حمایت میں ایک ایسے آدمی کو کھڑا کر دیا جو فرعون کی آل میں سے تھا، جو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لا چکا تھا مگر اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا۔ اس نے بہت اچھے طریقے سے موسیٰ علیہ السلام کا دفاع کیا اور فرعون کو ان کے قتل سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ فرعون کے اپنے لوگوں میں سے ہونے کی وجہ سے اس نے بات کی جرأت کی اور اسی وجہ سے فرعون نے اس کی بات کے بعد اپنی قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، ورنہ اس کے دربار میں کسی اسرائیلی کی نہ یہ جرأت تھی اور نہ ہی اس کی برداشت تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا عجیب تصرف ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنا معاملہ اس کے سپرد کیا تو اس نے وہاں سے حمایت کروا دی جہاں سے وہم و گمان تک نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ’’رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ ‘‘ فرمایا ہے، یعنی وہ مردانگی اور ایمان دونوں سے متصف تھا۔ اس کے مرد کامل اور مومن کامل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس نے افضل جہاد کیا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيْرٍ جَائِرٍ )) [ أبو داؤد، الملاحم، باب الأمر والنہي : ۴۳۴۴ ] ’’افضل جہاد ظالم بادشاہ یا ظالم امیر کے سامنے عدل کی بات کہنا ہے۔‘‘ بعض کہتے ہیں کہ یہ وہی شخص تھا جس نے اس سے پہلے فرعون کی مجلس میں موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے مشورہ کی خبر انھیں پہنچائی تھی، جس پر وہ ہجرت کر کے مدین چلے گئے تھے، مگر اس بات کی تصدیق کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں، البتہ اس میں شک نہیں کہ وہ بھی مرد کامل تھا۔ دیکھیے سورۂ قصص (۲۰)۔ مفسر رازی نے اپنا تجربہ لکھا ہے کہ میں نے اپنی ذات پر گزرنے والے حالات میں تجربہ کیا ہے کہ جب بھی کسی شریر نے میرے متعلق شر کا ارادہ کیا اور میں نے اس سے تعرض نہیں کیا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے پر اکتفا کیا، تو اللہ سبحانہ نے ایسے لوگوں کو میرے دفاع کے لیے مقرر فرما دیا جنھیں میں بالکل نہیں جانتا تھا اور جنھوں نے حد سے بڑھ کر اس شر کو دور کرنے کی کوشش کی۔ 2۔ يَكْتُمُ اِيْمَانَهٗ: اس جملے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ فرعون کی سختیوں کے باوجود موسیٰ علیہ السلام کی دعوت ہر جگہ پہنچ گئی تھی، حتیٰ کہ فرعون کے خاندان کے کچھ لوگ بھی اس سے متاثر ہو چکے تھے، اگرچہ اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ یہ مرد مومن بھی اس سے پہلے ایمان چھپاتا تھا، مگر جب بات موسیٰ علیہ السلام کے قتل تک پہنچ گئی تو اس کے ایمان نے اسے خاموش نہیں رہنے دیا۔ اس نے بات کا آغاز تو ایک غیر جانبدار آدمی کی طرح کیا، مگر آخر میں اس نے اپنے ایمان کا صاف اظہار کر دیا اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا، جیسا کہ آگے آ رہا ہے، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رکھا ہے۔ اب تک ایمان چھپائے رکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اسے مومن فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ مجبوری میں ایمان چھپانے کے باوجود آدمی مومن رہتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ نحل (۱۰۶)۔ 3۔ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ....: اس جملے میں اس مرد مومن نے تین حقیقتیں بیان کر دیں، پہلی یہ کہ رب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ کیا تم ایک آدمی کو اس بات پر قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب (میرا پالنے والا مالک) صرف وہ پاک ذات ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی وہ فرعون کو اپنا رب نہیں مانتا، بلکہ اس کو مانتا ہے جس نے فرعون اور اس کے باپ دادا کو اور زمین و آسمان سمیت ساری مخلوقات کو پیدا فرمایا ہے، تو اس پر اسے داد دینی اور اس کی تعظیم و تکریم کرنی چاہیے یا اسے قتل کر دینا چاہیے؟ دوسری حقیقت (وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ) یہ بیان فرمائی کہ وہ تمھارے پاس اپنے اللہ کی طرف سے بھیجے جانے کی واضح دلیلیں لے کر آیا ہے، جنھیں جھٹلانے کا تمھارے پاس کوئی جواز ہی نہیں، پورے ملک کے جادوگر اس کے مقابلے میں ناکام ہو کر اس کے حق پر ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں اور اس پر ایمان لا چکے ہیں۔ تیسری حقیقت (مِنْ رَّبِّكُمْ) یہ کہ اسے جس مالک کی طرف سے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا گیا ہے وہ تمھارا بھی رب ہے، یہ تمھاری جہالت ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کو اپنا رب بنائے بیٹھے ہو۔ 4۔ موسیٰ علیہ السلام کو جس قسم کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا اور جو جو حالات پیش آئے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی قسم کے حالات پیش آئے۔ ان واقعات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی کا سامان ہے کہ آپ ہی کو نہیں، پہلے پیغمبروں کو بھی ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 5۔ مفسر ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’فرعون کے سامنے یہ کہنا ’’ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ ‘‘ (کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے) بہت بڑی بات ہے (اس سے بڑی دلیری ہو نہیں سکتی)۔‘‘ ہاں، بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ بیان کیا ہے وہ اس سے بھی بڑی بات ہے۔ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما سے کہا کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ جو ایذا پہنچائی وہ مجھے بتائیں، تو انھوں نے فرمایا : (( بَيْنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يُصَلِّيْ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِيْ مُعَيْطٍ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ وَلَوٰی ثَوْبَهُ فِيْ عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ خَنْقًا شَدِيْدًا فَأَقْبَلَ أَبُوْ بَكْرٍ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِهِ وَ دَفَعَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ وَ قَالَ : ﴿ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ﴾ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ المؤمن : ۴۸۱۵ ] ’’ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کندھا پکڑ لیا اور اپنا کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں ڈال کر اسے بہت سختی کے ساتھ گھونٹ دیا، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اسے کندھے سے پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دھکا دے کر پیچھے ہٹایا اور کہا : ﴿اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ يَّقُوْلَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَ قَدْ جَآءَكُمْ بِالْبَيِّنٰتِ مِنْ رَّبِّكُمْ﴾ ’’کیا تم ایک آدمی کو اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے، میرا رب اللہ ہے، حالانکہ یقیناً وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘ اہلِ علم فرماتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اس مرد مومن سے بھی زیادہ شجاع تھے، کیونکہ وہ اپنا ایمان چھپاتا تھا، جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کھلم کھلا مومن تھے، جو سب سے پہلے ایمان لائے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور دفاع میں ان کے لیے اس مرد مومن سے زیادہ خطرہ تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے یہ بات صرف زبان سے نہیں کہی بلکہ عملاً عقبہ کو دھکا دے کر پیچھے بھی ہٹا دیا۔ 6۔ وَ اِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ: وہ مرد مومن موسیٰ علیہ السلام کو کاذب نہیں سمجھتا تھا، یہ بات اس نے ایک غیر جانبدار شخص کی حیثیت سے ایک مفروضہ کے طور پر کہی کہ اگر یہ جھوٹا ہے تب بھی اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر ہے، تمھارے لیے مناسب یہی ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ موسیٰ علیہ السلام نے بھی ان سے کہا تھا : ﴿ وَ اِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِيْ فَاعْتَزِلُوْنِ﴾ [ الدخان : ۲۱ ] ’’اور اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ سے الگ رہو۔‘‘ 7۔ وَ اِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ ....: ’’اور اگر یہ سچا ہے تو تمھیں اُن میں سے کوئی نہ کوئی چیز پہنچ جائے گی جن کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے۔‘‘ اس مرد مومن نے یہاں’’ يَعِدُكُمْ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جو وعدے کے لیے استعمال ہوتا ہے، ’’ يُوْعِدُكُمْ‘‘ استعمال نہیں کیا جو وعید کے لیے ہے۔ کیونکہ وعدے میں دونوں چیزیں آ جاتی ہیں، یعنی اگر وہ سچا ہوا اور تم نے اس کی اطاعت کی تو اس کا وعدہ ہے کہ تمھیں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائیاں حاصل ہوں گی، اس کے مطابق تمھیں ان میں سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل ہو جائے گا، اگر وہ دنیا میں حاصل نہ ہوئیں تو آخرت میں یقیناً حاصل ہو جائیں گی اور اگر تم سچا ہونے کے باوجود اس پر ایمان نہ لائے، یا تم نے اسے قتل کر دیا تو اس نے تمھارے کفر کی صورت میں دنیا کے اندر جن جن عذابوں کا وعدہ کیا ہے ان میں سے کوئی نہ کوئی ضرور تم پر آ جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی امتوں کے مختلف قسم کے عذابوں سے ڈرایا، فرمایا : ﴿ فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ﴾ [العنکبوت:۴۰]’’تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کر دیا۔‘‘ اور اگر دنیا میں کوئی عذاب نہ آیا تو آخرت کے عذاب سے بچنے کی تو کوئی صورت ہی نہیں۔ 8۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِيْ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ: اس جملے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے اس عظیم شخص نے دونوں مراد لیے ہوں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو راہِ راست کی ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا سخت جھوٹا ہو، جب کہ موسیٰ ( علیہ السلام ) میں حد سے بڑھنے کی کوئی بات نہیں ہے، پھر کذاب تو بہت دور کی بات ہے اس پر جھوٹ کا الزام ایک بار بھی نہیں لگا۔ اس کی واضح دلیلوں اور معجزوں سے اس کا سچا ہونا ثابت ہو رہا ہے، کسی مسرف و کذاب پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل و کرم کیسے ہو سکتا ہے اور ایسے شخص کو قتل کرنا کیسے روا ہو سکتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ یہ دونوں اوصاف بیان کرتے ہوئے درحقیقت وہ فرعون پر طعن کر رہا تھا، جو رب ہونے کا دعویٰ کر کے اپنی حد سے بے حساب تجاوز بھی کر رہا تھا اور زبردست جھوٹ بھی بول رہا تھا، اس کی طرف سے قتل کا ارادہ بھی اس کے مسرف و کذاب ہونے کا نتیجہ تھا کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کی توفیق نہیں دیتا۔