وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَن يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ
اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا اور انہوں نے اللہ کی جانب رجوع کرلیا، ان کے لیے خوش خبری ہے پس اللہ کی طرف سے بشارت ہے ان بندوں کے لیے
1۔ وَ الَّذِيْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ....: ’’ الطَّاغُوْتَ ‘‘ کی لغوی تشریح کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۲۵۶)۔ استاذ محمد عبدہ لکھتے ہیں، اصل میں لفظ ’’ الطَّاغُوْتَ ‘‘ (بروزن فَعْلُوْتٌ لَا فَاعُوْلٌ أَصْلُهُ طَغْيُوْتٌ أَوْ طَغْوُوْتٌ) ’’طُغْيَانٌ‘‘ سے مشتق ہے، لہٰذا اس سے مراد شیطان بھی ہے اور بت بھی اور ہر وہ انسان بھی جو بندگی کی حد سے نکل کر اپنے آپ کو خدائی کے مقام پر رکھتا ہو۔ اس کی عبادت سے مراد محض اسے سجدہ کرنا نہیں بلکہ اسے مستقل بالذات آمر و مطاع سمجھتے ہوئے اس کے احکام کی بجاآوری بھی ہے۔ جوہری لکھتے ہیں : ’’اَلطَّاغُوْتُ الْكَاهِنُ وَالشَّيْطَانُ وَ كُلُّ رَأْسٍ فِي الضَّلَالِ‘‘ کہ اس سے مراد شیطان، کاہن اور ہر وہ چیز ہے جو گمراہی کا منبع بنے۔ امام راغب کہتے ہیں : ’’ هُوَ عِبَارَةٌ عَنْ كُلِّ مَعْبُوْدٍ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ‘‘ کہ وہ ہر اس چیز سے عبارت ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے۔ (روح) (اشرف الحواشی) 2۔ معلوم ہوا توحید کے لیے صرف اللہ کی عبادت کافی نہیں بلکہ طاغوت سے کنارا کشی بھی لازم ہے، اس لیے کلمہ توحید ’’لَا اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ‘‘ میں پہلے تمام الٰہوں کی نفی ہے، پھر ایک اللہ کی عبادت کا اثبات ہے۔ 3۔ لَهُمُ الْبُشْرٰى : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ یونس کی آیت (۶۴)۔ 4۔ لَهُمُ الْبُشْرٰى....: ’’ عِبَادِ ‘‘ اصل میں ’’عِبَادِيْ‘‘ ہے، آیات کے فواصل کی مناسبت کے لیے یاء کو حذف کر کے دال پر کسرہ باقی رکھا گیا ہے اور ترجمہ ’’میرے بندوں کو‘‘ کیا گیا ہے۔