ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
وہ جہاں کہیں پائے جائیں، ان پر ذلت کا ٹھپہ لگا دیا گیا ہے، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہوجائے یا انسانوں کی طرف سے کوئی ذریعہ نکل آئے جو ان کو سہارا دیدے، انجام کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں اور ان پر محتاجی مسلط کردی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے۔ (نیز) اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے، اور ساری حدیں پھلانگ جایا کرتے تھے۔
1۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ:یعنی مغلوب ہونے کے ساتھ ہی ان پر ذلت بھی مسلط کر دی گئی۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ: ۶۱) یہود کی اس ذلت سے بچا ؤ کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں آ جائیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں، یا اسلامی مملکت میں جزیہ دے کر ذمی کی حیثیت سے رہنا قبول کر لیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کی پناہ ان کو حاصل ہو جائے۔ اس کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ اسلامی مملکت کے بجائے عام مسلمان ان کو پناہ دے دیں، جیسا کہ ہر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے اور اسلامی مملکت کے حکمرانوں اور تمام مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ معمولی درجے کے مسلمان حتیٰ کہ کسی عورت کی دی ہوئی پناہ کو بھی رد نہ کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ کسی بڑی غیر مسلم طاقت کی پشت پناہی انھیں حاصل ہو جائے، کیونکہ ”النَّاسِ“ عام ہے، اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔ 2۔ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : یعنی نافرمانی اور حد سے گزرنے کا اثر یہ ہوا کہ وہ کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے، پھر کفر اور قتل انبیاء کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا غضب اترا، ذلیل و محتاج ہو گئے، حکومت اور ریاست چھن گئی۔ حاصل یہ کہ ذلت و غضب اور مسکنت کی وجہ کفر اور قتلِ انبیاء ہے اور کفر اور قتل انبیاء کی وجہ ان کی نافرمانی اور زیادتی ہے، پس ”ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا“ سے سبب کے سبب کی طرف اشارہ ہے۔