سورة آل عمران - آیت 105

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جن کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکے تھے، اس کے بعد بھی انہوں نے آپس میں پھوٹ ڈال لی اور اختلاف میں پڑگئے، ایسے لوگوں کو سخت سزا ہوگی۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا....: اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلاف اور فرقہ بندی کی وجہ یہ نہ تھی کہ انھیں حق کا پتا نہ تھا اور وہ اس کے دلائل سے بے خبر تھے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لیے اختلاف اور فرقہ بندی کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف طریقوں سے بار بار یہ حقیقت واضح فرمائی اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہود اکہتر (۷۱) یا بہتر (۷۲) فرقوں میں جدا جدا ہو گئے، اسی طرح نصاریٰ بھی اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں جدا جدا ہو جائے گی۔‘‘ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فی افتراق ھذہ الأمۃ:۲۶۴۰، و قال حسن صحیح ] دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ نے فرمایا:’’سب آگ میں جائیں گے مگر ایک۔‘‘ پوچھنے پر بتایا:(( مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ أَصْحَابِيْ ))’’جس طریقے پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فی افتراق ھذہ الأمۃ:۲۶۴۱، و حسنہ الألبانی ] افسوس! امت مسلمہ کے تفرقہ بازوں نے بھی وہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کے روشن دلائل قرآن کریم اور سنت صحیحہ کی صورت میں انھیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں، مگر وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور اپنی عقل و ذہانت کا سارا زور پہلی امتوں کی طرح تاویل و تحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔