سورة آل عمران - آیت 104

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ....: یعنی اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑنے اور اختلاف و ضلالت سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ تم میں سے ایک جماعت نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی رہے۔ جب تک اس قسم کی جماعت قائم رہے گی، لوگ ہدایت پر رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے، پھر اگر طاقت نہ رکھے تو اپنی زبان سے، پھر اگر طاقت نہ رکھے تو اپنے دل سے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘ [ مسلم، الإیمان، باب بیان کون النھی عن المنکر....: ۴۹، عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ ] شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ ایک جماعت قائم رہے جہاد کرنے کے لیے اور دین کا تقید کرنے ( پابندی کرنے اور کروانے) کے لیے، تاکہ کوئی دین کے خلاف نہ کرے اور جو اس کام پر قائم ہوں وہی کامیاب ہیں اور یہ کہ کوئی کسی سے واسطہ نہ رکھے ’’موسیٰ بدین خود، عیسیٰ بدین خود ‘‘ (موسیٰ اپنے دین پر اور عیسیٰ اپنے دین پر) یہ راہ مسلمان کی نہیں ہے۔‘‘ (موضح) یہ تفسیر ’’مِنْكُمْ‘‘کے’’مِنْ‘‘ کو بعض کے معنی میں لینے کی صورت میں ہے، جیسا کہ عام طور پر ﴿وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ ﴾ میں ’’مِنْ‘‘ کو تبعیض کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تفسیر کی رو سے مسلمانوں کی ایک جماعت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کافی ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ امت کے ہر فرد پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض ہے، کیونکہ آخر میں فرمایا کہ کامیاب صرف وہ ہیں جو یہ فریضہ سرانجام دیں اور ظاہر ہے کہ کامیابی کی ضرورت ہر مسلمان کو ہے۔ اس لیے یہاں ’’ مِنْكُمْ ‘‘ کے ’’مِنْ‘‘ کو بیانیہ ماننا پڑے گا اور معنی یہ ہو گا کہ اے مسلمانو! تمہاری صورت میں ایک ایسی جماعت ہونا لازم ہے جو نیکی کا حکم دیں۔ ابن جزی نے فرمایا:’’ وَ قَوْلُهُ ’’ مِنْكُمْ ‘‘ دَلِيْلٌ عَلٰي اَنَّهُ فَرْضُ كَفَايَةٍ لِاَنَّ مِنْ لِلتَّبْعِيْضِ وَ قِيْلَ اِنَّهَا لِبِيَانِ الْجِنْسِ وَالْمَعْنَي كُوْنُوْا أُمَّةً ‘‘ ’’ یعنی ایک قول یہ ہے کہ ’’مِنْ ‘‘ جنس کے بیان کے لیے ہے اور معنی یہ ہے کہ تم سب ایسی امت بن جا ؤ جو....۔ جیسا کہ فرمایا:﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ﴾ [الحج:۳۰ ] ’’پس گندگی سے بچ جاؤ جو بت ہیں۔‘‘ ابن جزی کہتے ہیں:’’مِنْ‘‘ ”لِبِيَانِ الْجِنْسِ كَأَنَّهُ قَالَ الرِّجْسُ هُوَ الْأَوْثَانُ“ یعنی ’’ مِنْ‘‘ جنس کے لیے ہے اور ’’رجس‘‘ سے مراد بت ہیں۔ [ التسہیل لابن جُزی]