فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ
پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا
1۔ فَلَوْ لَا اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَ....: ’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ تسبیح کرنے والوں میں سے تھا‘‘ میں دو چیزیں شامل ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اس سے پہلے بھی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کا ذکر کرنے والے تھے اور دوسری یہ کہ اس وقت بھی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے کہا : ﴿ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّيْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ﴾ [ الأنبیاء : ۸۷ ] ’’تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقیناً میں ظلم کرنے والوں سے ہو گیا ہوں۔‘‘ اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو وہیں فوت ہو جاتے اور مچھلی کا پیٹ ہی ان کی قبر بن جاتا۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مصیبت کے وقت پکارنے پر مدد فرماتا ہے، خوش حالی میں اپنی تسبیح اور ذکر کرنے والوں کا مصیبت میں زیادہ خیال رکھتا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک لمبی حدیث میں مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’لڑکے! میں تمھیں چند باتیں نہ سکھاؤں جن کے ساتھ تمھیں اللہ تعالیٰ نفع دے گا؟‘‘ میں نے کہا : ’’کیوں نہیں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اِحْفَظِ اللّٰهَ يَحْفَظْكَ، اِحْفَظِ اللّٰهَ تَجِدْهُ أَمَامَكَ، تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ، يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ )) [مسند أحمد :1؍307، ح : ۲۸۰۷، قال المحقق حدیث صحیح ] ’’اللہ کا دھیان رکھ، وہ تیرا دھیان رکھے گا۔ اللہ کا دھیان رکھ تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ خوش حالی میں اس سے جان پہچان رکھ، وہ سختی میں تیری پہچان رکھے گا۔‘‘ جو خوش حالی میں ایمان نہ لائے اور اللہ تعالیٰ کو یاد نہ رکھے سختی میں اس کا ایمان اور اس کی فریاد کام نہیں دیتی، جیساکہ فرعون نے غرق ہوتے وقت کہا : ﴿ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا الَّذِيْ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْا اِسْرَآءِيْلَ﴾ [ یونس : ۹۰ ] ’’میں ایمان لایا کہ حق یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔‘‘ تو اسے کہا گیا : ﴿آٰلْـٰٔنَ وَ قَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ ﴾ [ یونس : ۹۱ ] ’’کیا اب؟ حالانکہ بے شک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔‘‘