سورة الصافات - آیت 103

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

) جب باپ اور بیٹا دونوں خدا کے آگے جھک گئے اور باپ نے ذبح کرنے کے لیے بیٹے کو زمین پر پچھاڑا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَلَمَّا اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ : عام طور پر مفسرین نے ’’اَلْجَبِيْنُ‘‘ کا ترجمہ پیشانی یا ماتھا کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو اوندھا اس لیے لٹایا کہ ذبح کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ کر کہیں دل میں رِقّت اور ہاتھ میں لرزش پیدا نہ ہو جائے۔ بعض نے کچھ آثار بھی نقل کیے ہیں کہ اسماعیل علیہ السلام نے خود ابراہیم علیہ السلام کو ایسا کرنے کی وصیت کی۔ بعض نے لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کے کہنے پر اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ باندھ دیے اور اسے الٹا لٹا لیا اور چاہتے تھے کہ نیچے سے گردن پر چھری پھیریں۔ مگر یہ سب اسرائیلیات ہیں اور ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں۔ اس مقام پر جبین سے مراد ماتھا لینا بہت بعید ہے، کیونکہ جبین کا معنی ’’جَبْهَةٌ‘‘ (ماتھے) کی ایک جانب ہے۔ ہر آدمی کی دو جبینیں ہوتی ہیں۔ طبری نے اس قسم کی روایتیں نقل کرنے کے باوجود خود ’’ وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’وَ صَرَعَهُ لِلْجَبِيْنِ وَالْجَبِيْنَانِ مَا عَنْ يَمِيْنِ الْجَبْهَةِ وَ عَنْ شِمَالِهَا وَلِلْوَجْهِ جَبِيْنَانِ وَالْجَبْهَةُ بَيْنَهُمَا‘‘ یعنی ابراہیم علیہ السلام نے اسے جبین پر گرا لیا اور دو جبینیں وہ ہیں جو ’’جَبْهَةٌ‘‘ (پیشانی) کے دائیں اور بائیں طرف ہوتی ہیں اور چہرے کی دو جبینیں ہوتی ہیں اور ’’جَبْهَةٌ‘‘ (پیشانی) ان دونوں کے درمیان ہوتی ہے۔‘‘ قاموس میں ہے : ’’اَلْجَبِيْنَانِ حَرْفَانِ مَكْتَنِفَا الْجَبْهَةِ مِنْ جَانِبَيْهَا‘‘ ’’یعنی ماتھے کے دونوں جانبوں والے کناروں کو دو جبینیں کہتے ہیں۔‘‘ اس لیے میں نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا۔‘‘ ذبح کرتے وقت کسی بھی جانور کو اسی طرح گرایا جاتا ہے، تاکہ حلق پر چھری پھر سکے۔ 2۔ ’’ فَلَمَّا اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ ‘‘ (تو جب دونوں نے حکم مان لیا اور اس نے اسے پیشانی کی ایک جانب پر گرا دیا) تو پھر کیا ہوا؟ صاحب کشف نے فرمایا : ’’جواب یہ ہے کہ (كَانَ مَا كَانَ) یعنی پھر ہوا جو ہوا۔‘‘ اس سوال کا جواب یہاں ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ یہ بات بیان میں آنا مشکل ہے کہ اس وقت باپ کے دل پر کیا گزری تھی، فرشتوں کی حیرانی کا کیا عالم تھا اور اللہ تعالیٰ، جس کے حکم پر وہ عزیز بیٹے کو ذبح کر رہے تھے، کس قدر خوش اور مہربان ہو رہا تھا۔ 3۔ اس مقام پر مفسرین نے بعض صحابہ اور تابعین سے مختلف آثار نقل کیے ہیں، جن میں سے اکثر کی تو سند ہی صحیح نہیں۔ اگر صحیح ہو بھی تو ظاہر ہے وہ حضرات واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے، نہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں روایت کی ہیں اور نہ ہی اپنی معلومات کا کوئی اور معتبر ذریعہ بتایا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ’’البداية والنهاية‘‘ میں اسماعیل علیہ السلام کے قصے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’غَالِبُ مَا هٰهُنَا مِنَ الْآثَارِ مَأْخُوْذٌ مِنَ الْإِسْرَائِيْلِيَاتِ وَفِي الْقُرْآنِ كِفَايَةٌ عَمَّا جَرٰي مِنَ الْأَمْرِ الْعَظِيْمِ وَالْاِخْتِبَارِ الْبَاهِرِ وَأَنَّهُ فُدِيَ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ وَ قَدْ وَرَدَ فِي الْحَدِيْثِ أَنَّهُ كَانَ كَبَشًا ‘‘ ’’یعنی یہاں ذکر کیے جانے والے اکثر آثار اسرائیلیات سے لیے گئے ہیں اور قرآن مجید میں جو کچھ مذکور ہے وہ اس عظیم الشان معاملے اور طاقت سے اونچے امتحان کے بیان کے لیے کافی ہے اور یہ کہ ان کا فدیہ عظیم ذبیحے کے ساتھ دیا گیا اور حدیث میں آیا ہے کہ وہ ایک مینڈھا تھا۔ ‘‘