لَا فِيهَا غَوْلٌ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ
نہ اس میں کوئی ضرر ہوگا اور نہ وہ (پینے والے) اس سے عقل کھوبیٹھیں (٧)۔
لَا فِيْهَا غَوْلٌ وَّ لَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُوْنَ : ’’ غَوْلٌ ‘‘ کا معنی خرابی، سر درد ، پیٹ کا درد اور ہلاکت ہے۔ ’’ يُنْزَفُوْنَ ‘‘ ’’نَزَفَ‘‘ (مجرد) اور ’’أَنْزَفَ‘‘ (مزیدفیہ) معروف و مجہول کا معنی عقل زائل ہونا ہے۔ دنیا کی شراب میں پائی جانے والی خرابیوں میں سے اس کے بدرنگ، بد ذائقہ اور بدبو دار ہونے کی نفی تو ’’ بَيْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ‘‘ سے ہو گئی تھی، اب اس میں پائی جانے والی مزید خرابیوں کی بھی نفی فرما دی۔ دنیا کی شراب پینے کے بعد الٹیاں آتی ہیں، خمار کی صورت میں سر، پیٹ اور سارے جسم میں درد ہوتا ہے جو بعض اوقات ہلاکت تک پہنچا دیتا ہے اور عقل جو انسان کا شرف ہے، جاتی رہتی ہے۔ جنت کی شراب ایسی ہر خرابی سے پاک ہو گی، نہ اس میں سر درد یا کوئی اور خرابی ہو گی اور نہ ہی اس کی وجہ سے ان کی عقل ماری جائے گی۔ البتہ شراب کی وہ خوبیاں جن کی وجہ سے لوگ اتنی خرابیوں کے باوجود اسے پیتے ہیں، وہ سب بدرجہ اَتم موجود ہوں گی، مثلاً کھانے کی رغبت پیدا کرنا، سرور لانا اور قوت و شہوت کو ابھارنا وغیرہ۔