يُطَافُ عَلَيْهِم بِكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ
ان پر (شراب طہور کے) چشموں سے ساغر بھر بھر کرپھرائے جائیں گے (A)
1۔ يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَاْسٍ : ’’كَأْسٌ‘‘ شیشے کا پیالہ جو شراب سے بھرا ہوا ہو، خالی پیالے کو ’’كَأْسٌ‘‘ نہیں کہتے۔ مجلس احباب میں سرور کے لیے شراب معروف تھی، سو فرمایا، جنت میں شراب کے جام پھرانے والے۔ غلمان ہوں گے، انھی جنتیوں کے لڑکے جو (چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے اور )ہمیشہ اسی طرح رہیں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَاَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُوْنٌ ﴾ [ الطور : ۲۴ ] ’’اور ان پر چکر لگاتے رہیں گے انھی کے لڑکے، جیسے وہ چھپائے ہوئے موتی ہوں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ يَطُوْفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ (17) بِاَكْوَابٍ وَّ اَبَارِيْقَ وَ كَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍ﴾ [ الواقعۃ : ۱۷، ۱۸ ] ’’ان پر چکر لگا رہے ہوں گے وہ لڑکے جو ہمیشہ (لڑکے ہی) رکھے جائیں گے۔ ایسے کوزے اور ٹونٹی والی صراحیاںاور لبالب بھرے ہوئے پیالے لے کر جو بہتی ہوئی شراب کے ہوں گے۔‘‘ 2۔ مِنْ مَّعِيْنٍ : ’’ مَعِيْنٍ‘‘’’مَعَنَ يَمْعَنُ مُعُوْنًا‘‘ (ف، ک) ’’ اَلْمَاءُ‘‘ ’’جَرٰي‘‘ پانی کا بہنا۔ ’’ مَعِيْنٍ ‘‘ (فَعِيْلٌ ) بہنے والا، جیسے ’’شَرُفَ‘‘سے ’’شَرِيْفٌ‘‘ ہے۔ یعنی وہ شراب اس قسم کی نہیں ہو گی جو دنیا میں پھلوں اور غلوں کو سڑا کر کشید کی جاتی ہے، بلکہ قدرتی چشموں سے نکلے گی اور نہروں کی صورت میں بہتی ہو گی، جن میں سے جام بھر بھر کر انھیں پلائے جائیں گے۔ جنت کی چار قسم کی نہروں میں سے ایک قسم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ﴾ [ محمد : ۱۵ ] ’’اور کئی نہریں شراب کی ہیں، جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہے۔‘‘