وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
(اور اے پیغمبر اس حقیقت پر غور کر) جب ایسا ہوا تھا کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا : "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" فرشتوں نے عرض کیا "کیا ایسی ہستی کو خلیفہ بنایا جا رہا ہے جو زمین خرابی پھیلائے گی اور خونریزی کرے گی؟ حالانکہ ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہوئے تیری پاکی و قدوسی کا اقرار کرتے ہیں (کہ تیری مشیت برائی سے پاک اور تیرا کام نقصان سے منزہ ہے) اللہ نے کہا " میری نظر جس حقیق پر ہے، تمہیں اس کی خبر نہیں"۔
1۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ فرشتے ایک الگ مخلوق ہیں اور وہ انسان کی پیدائش سے پہلے موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف میں اللہ پر ایمان کے بعد فرشتوں پر ایمان کا ذکر فرمایا۔ [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم:۵۰ ] نیک انسانوں یا نیکی کی قوتوں کو فرشتے قرار دینا درحقیقت ان کے وجود سے انکار ہے، جو ایمان کے منافی ہے۔ 2۔خلیفہ وہ ہے جو کسی کی موت کے بعد یا اس کے غائب ہونے کی صورت میں اس کا جانشین بنے، یا تمام امور خود سر انجام نہ دے سکنے کی صورت میں بعض معاملات میں اس کا نائب ہو۔ یہاں خلیفہ سے اللہ کا خلیفہ مراد لینا درست نہیں ، کیونکہ نہ اللہ تعالیٰ پر موت آئے گی نہ وہ غائب ہے اور نہ وہ اپنے کاموں میں کسی کا محتاج ہے، بلکہ بقول ابن کثیر رحمہ اللہ ’’ قَوْمًا يَخْلُفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا قَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ جِيْلاً بَعْدَ جِيْلٍ‘‘ یعنی خلیفہ سے ایسے لوگ مراد ہیں جو نسلاً بعد نسل ایک دوسرے کے جانشین بنیں گے۔ اسی طرح خلیفہ سے مراد صرف آدم علیہ السلام نہیں بلکہ پوری نوع انسان ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ زمین میں فساد اور خون بہانا آدم علیہ السلام کا نہیں بلکہ اولاد آدم کا کام تھا۔ [ ابن کثیر ] 3۔ فرشتوں کو انسان کا زمین میں فساد کرنا کیسے معلوم ہوا ؟ جواب یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے انھیں بتا دیا تھا۔ دلیل ان کا یہ کہنا ہے کہ ’’ہمیں کچھ علم نہیں مگر جو تو نے ہمیں سکھایا۔‘‘ فرشتوں کا سوال اعتراض کے لیے نہیں بلکہ انسان کی پیدائش کی حکمت معلوم کرنے کے لیے تھا۔