أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِن شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا
پھر کیا یہ غافل زمین پر چلتے پھرتے نہیں کہ گزشتہ قوموں کے آثار وحالات کا مطالعہ کرتے اور سوچیں کہ ان قوموں اور طاقتوں کو غفلت وزیادتی کا کیسا نتیجہ بھگتنا پڑا حالانکہ وہ قوت وتعداد میں ان سے بڑھی ہوئی تھیں یاد رکھو اللہ تعالیٰ کو دنیا کی کوئی طاقت بھی عاجز نہیں کرسکتی وہ سب حالات سے واقف ہے اور ہر بات کی قدرت رکھنے والا ہے
1۔ اَوَ لَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ روم کی آیت (۹) کی تفسیر۔ 2۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعْجِزَهٗ مِنْ شَيْءٍ ....: یعنی آسمان و زمین یعنی ساری کائنات میں کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتی کہ وہ اسے پکڑ نہ سکے، یا پکڑنے کے بعد وہ اس کی گرفت سے نکل کر بھاگ جائے۔ 3۔ اِنَّهٗ كَانَ عَلِيْمًا قَدِيْرًا : کیونکہ وہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا ہے اور ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی چیز اسے عاجز کر دے، وہ اسے اس لیے نہ پکڑ سکے کہ اسے پتا ہی نہ چلے کہ وہ کہاں ہے، یا اسے معلوم تو ہو مگر وہ اسے پکڑنے کی طاقت نہ رکھے۔ ہمیشہ کا معنی ’’ كَانَ ‘‘ کا لفظ ادا کر رہا ہے۔