يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
اے لوگو ! تم اللہ کے دروازے کے فقیر اور سائل ہو اللہ تو تمہاری مدد سے بے نیاز ہے
1۔ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ ....: خبر ’’ الْفُقَرَآءُ ‘‘ پر الف لام آنے سے حصر اور تاکید کا معنی پیدا ہو گیا کہ لوگو! تم ہی اللہ کی طرف محتاج ہو۔ اسی طرح ’’ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ ‘‘ میں ضمیر فصل’’ هُوَ ‘‘ اور خبر ’’ الْغَنِيُّ ‘‘ پر الف لام سے حصر کامعنی پیدا ہوا کہ صرف اللہ ہی ہے جو سب سے بے پروا، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔ 2۔ یہ بیان کرنے کے بعد کہ آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس کے سوا جنھیں پکارا جاتا ہے وہ نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں، حتیٰ کہ وہ ایک قطمیر (کھجور کی گٹھلی پر باریک چھلکا) کے مالک بھی نہیں۔ اب پچھلے سارے بیان کے خلاصے اور نتیجے کے طور پر فرمایا، لوگو! تم ہی اللہ تعالیٰ کے ہر طرح سے محتاج ہو، اپنے وجود میں، اپنی بقا اور اپنی ہر ضرورت کے لیے، لہٰذا اسی سے مانگو اور اسی کی عبادت کرو۔ 3۔ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ : یعنی دوسرے سب محتاج ہیں، ایک اللہ تعالیٰ ہے جو غنی ہے، کسی کا محتاج نہیں۔ غنی کے ساتھ حمید اس لیے فرمایا کہ غنی ایسا بھی ہو سکتا ہے جو کسی کا محتاج تو نہ ہو مگر نہ اس میں کوئی خوبی ہو نہ کسی کو کوئی فائدہ پہنچاتا ہو۔ فرمایا، اللہ ایسا غنی ہے کہ وہ تمام کمالات اور خوبیوں کا مالک ہے، تمھیں اور تمام مخلوق کو حاصل ہر نعمت اسی کی عطا کردہ ہے، اس لیے وہی تمام تعریفوں اور تمام شکر کا مستحق ہے۔