وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں جوڑے جوڑے بنایا کوئی مادہ حاملہ نہیں ہوتی اور نہ وہ وضع حمل کرتی ہے مگر وہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر ملتی ہے اور نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے مگر یہ سب کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے بلاشبہ یہ سب کام اللہ پر (نہایت) آسان ہیں۔
1۔ وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ....: اس سے پہلے بارش سے زمین کے زندہ ہونے کو موت کے بعد زندگی کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا، اب اس آیت میں موت کے بعد زندگی کی تین دلیلیں پیش فرمائیں جو تینوں عقلی ہیں، پہلی انسان کا مٹی سے پیدا ہو کر مختلف مراحل سے گزر کر موت کی آغوش میں جا بسنا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ وَ نُقِرُّ فِي الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْا اَشُدَّكُمْ وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا ﴾ [ الحج : ۵ ] ’’اے لوگو! اگر تم اٹھائے جانے کے بارے میں کسی شک میں ہو تو بے شک ہم نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک قطرے سے، پھر کچھ جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کی ایک بوٹی سے، جس کی پوری شکل بنائی ہوئی ہے اور جس کی پوری شکل نہیں بنائی ہوئی، تاکہ ہم تمھارے لیے واضح کریں اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر ہم تمھیں ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں، پھر تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو قبض کر لیا جاتا ہے اور تم میں سے کوئی وہ ہے جو سب سے نکمّی عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے۔‘‘ یعنی جس اللہ نے پہلے مٹی سے پیدا فرمایا وہ انسان کے مٹی ہونے کے بعد دوبارہ بھی اسے پیدا فرما سکتا ہے۔ 2۔ وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰى وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِهٖ : یعنی کسی بھی مادہ کے حمل سے لے کر وضع تک کے تمام مراحل جس ہستی کے علم میں ہیں اور اسی کے کمال قدرت سے سر انجام پا رہے ہیں، اس کے لیے اس انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ بنا دینا کیا مشکل ہے؟ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورۂ حج کی آیت (۸)۔ 3۔ وَ مَا يُعَمَّرُ مِنْ مُّعَمَّرٍ ....: یہ بعث بعد الموت کی تیسری دلیل ہے، یعنی کسی زیادہ عمر والے کو زیادہ عمر دی جاتی ہے، یا کم عمر والے کو کم عمر دی جاتی ہے، تو یہ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے ہی طے فرما دیا ہے۔ تو جس ہستی نے ہر زیادہ عمر والے کی عمر اور کم عمر والے کی عمر پہلے ہی لکھ دی ہے اور جو ہر شخص کی زندگی کے ایک ایک لمحے سے واقف ہے اس کے لیے انھیں دوبارہ بنانے میں کیا دشواری ہو سکتی ہے؟ 4۔ یعنی اگرچہ تمھارے لیے اور پوری مخلوق کے لیے ناممکن ہے کہ تم پہلے ہی ان باتوں کو جان لو یا ان کا فیصلہ کر لو، مگر اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بالکل آسان ہے، کیونکہ اسے پہلے ہی ان سب باتوں کا علم ہے اور وہ ہمیشہ سے یہ سب کچھ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔