سورة آل عمران - آیت 75

وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اہل کتاب میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ اگر تم ان کے پاس دولت کا ایک ڈھیر بھی امانت کے طور پر رکھوا دو تو وہ تمہیں واپس کردیں گے، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر ایک دینار کی امانت بھی ان کے پاس رکھواؤ تو وہ تمہیں واپس نہیں دیں گے، الا یہ کہ تم ان کے سر پر کھڑے رہو۔ ان کا یہ طرز عمل اس لیے ہے کہ انہوں نے یہ کہہ رکھا ہے کہ : امیوں ( یعنی غیر یہودی عربوں) کے ساتھ معاملہ کرنے میں ہماری کوئی پکڑ ہیں ہوگی۔ اور (اس طرح) وہ اللہ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ:اللہ تعالیٰ کا انصاف ملاحظہ فرمائیں کہ اہلِ کتاب کی مذمت کے دوران بھی اگر ان کے کچھ لوگوں میں کوئی خوبی تھی تو اس کا اعتراف فرمایا ہے، مذمت صرف ان کی فرمائی ہے جو اس کے حق دار تھے۔ ایک خزانہ امانت ادا کر دینے والوں کی بہترین مثال صحیح بخاری میں مذکور وہ تفصیلی واقعہ ہے جس میں بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے اسرائیلی سے ایک ہزار دینار قرض مانگا، پھر پہنچانے کے لیے کشتی نہ ملنے پر لکڑی میں ڈال کر سمندر کے حوالے کر دیا، پھر بعد میں خود بھی لے کر حاضر ہوا۔ مگر دوسرے نے بھی امانت کا مظاہرہ کیا اور بتایا کہ مجھے تمہاری طرف سے لکڑی میں بھیجی ہوئی رقم مل گئی تھی۔ [بخاری، الکفالۃ، باب الکفالۃ فی القرض:۲۲۹۱ ] وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ لَّا يُؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ:سر پر کھڑا رہنے کے بغیر ایک دینار بھی ادا نہ کرنے کی وجہ ان کے کہنے کے مطابق یہ ہے کہ اُمّی (عرب) لوگوں کا مال کھا جانے میں ہم پر کوئی گرفت نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کبھی امانت میں خیانت کا حکم نہیں دیا، خواہ وہ اسرائیلی ہو یا عرب، بلکہ اسلام نے تو کسی ذمی کے مال کو بھی بلا اجازت لینا جائز قرار نہیں دیا اور کسی حربی کافر کے مال کو بھی خیانت سے کھانے کی اجازت نہیں دی، چنانچہ فرمایا:﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا ﴾ [النساء:۵۸ ]’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔‘‘ افسوس کہ یہود کی طرح بعض مسلمان بھی کفار کے ممالک میں سود کے لین دین کے لیے کہتے ہیں کہ دار الحرب میں سود جائز ہے اور دار الحرب بھی اپنی مرضی کا بنایا ہوا ہے، خواہ ان سے جنگ ہو رہی ہو یا نہ۔ 3۔ ہمارے ایک تاجر دوست نے اس آیت سے استدلال کیا کہ کوئی شخص کتنا بھی قرض واپس نہ کرنے والا ہو اگر آپ بار بار اس سے تقاضا کرتے رہیں گے تو آخر کار آپ کے پیسے نکل آئیں گے، بشرطیکہ آپ نہ اس سے لڑیں، نہ اسے لڑنے کا موقع دیں، کیونکہ پھر بار بار تقاضا ممکن نہیں رہتا۔ اس نے کہا یہ میرا تجربہ ہے۔