سورة سبأ - آیت 50

قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي ۖ وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آپ کہہ دیجئے اگر میں گمراہ ہوگیا ہوں تومیری گمراہی کاوبال مجھ پر ہے اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس وحی کی بنا پر جو میرا رب مجھ پر نازل کرتا ہے بے شک وہ بڑا سننے والا اور قریب ہی ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَا اَضِلُّ عَلٰى نَفْسِيْ : یہ پانچویں تلقین ہے کہ آپ انھیں سمجھانے کے لیے کہیں کہ اگر تمھارے بتوں کو اور تمھارے آباء کے دین کو چھوڑنے کی وجہ سے میں گمراہ ہو گیا ہوں، جیسا کہ میرے بارے میں تم کہتے پھرتے ہو تو اس گمراہی کا وبال مجھی پر پڑے گا، تم پر اس کی ذمہ داری نہیں اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں، جیسا کہ حقیقت ہے، تو یہ میرا کمال یا خوبی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میری راہ نمائی ہے اور میں تمھیں صاف بتا چکا ہوں کہ میں اپنے نفس کی یا کسی اور کی پیروی کرتا ہی نہیں، بلکہ صرف وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف کی جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿قُلْ اِنَّمَا اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ ﴾ [الأعراف : ۲۰۳ ] ’’کہہ دے میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف وحی کی جاتی ہے۔‘‘ اس آیت میں یہ ادب بھی سکھایا گیا کہ خامی اور غلطی کی نسبت اپنی طرف کرنی ہے اور ہدایت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف، کیونکہ ساری خیر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ہدایت اور بھلائی صرف اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی اور اس کے بیان کردہ حق میں ہے، پھر جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے نفس کی وجہ سے گمراہ ہوتا ہے اور جسے ہدایت ملتی ہے اسے اللہ کی طرف سے ملتی ہے، جیساکہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: (( أَقُوْلُ فِيْهَا بِرَأْيِيْ، فَإِنْ يَّكُ خَطَأً فَمِنِّيْ وَ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَ إِنْ يَّكُ صَوَابًا، فَمِنَ اللّٰهِ )) [مسند أحمد :4؍279، ح : ۱۸۴۸۹ ] ’’میں اس کے بارے میں اپنی رائے سے کہتا ہوں، اگر وہ خطا ہوئی تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہو گی اور اگر درست ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔‘‘ اِنَّهٗ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌ : ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم کسی وادی کی بلندی پر پہنچتے تو ہم ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے اور ہماری آوازیں بلند ہو جاتیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ! ارْبَعُوْا عَلٰی أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُوْنَ أَصَمَّ وَ لَا غَائِبًا، إِنَّهُ مَعَكُمْ، إِنَّهُ سَمِيْعٌ قَرِيْبٌ، تَبَارَكَ اسْمُهُ وَ تَعَالٰی جَدُّهُ)) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب ما یکرہ من رفع الصوت في التکبیر : ۲۹۹۲ ] ’’لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو، کیونکہ تم نہ کسی بہرے کو پکار رہے ہو نہ غائب کو، وہ تو تمھارے ساتھ ہے، بے شک وہ سب کچھ سننے والا ہے، قریب ہے۔ اس کا نام بہت برکت والا اور اس کی شان بہت بلند ہے۔‘‘