لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
بے شک رسول اللہ کی زندگی میں ان کے لیے (پیروی اور اتباع کا) ایک بہترین نمونہ ہے جو اللہ اور یوم آخرت سے ڈرنے (یا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے) اور اللہ کا بکثرت ذکر کرنے والے ہوں (٥)۔
1۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ …:’’ اُسْوَةٌ ‘‘ اور ’’قُدْوَةٌ‘‘ جس کی پیروی کی جائے، نمونہ۔ اس میں لڑائی سے پیچھے رہنے والوں پر عتاب ہے، یعنی تمھارا فرض تھا کہ جس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر جان لڑا رہے تھے اور تمام تکلیفوں اور مشقتوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے تھے، تم بھی جان لڑاتے۔ ایسا تو نہیں تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں تو خطرے میں جھونک دیا ہو اور خود کسی پناہ میں آرام کرنے بیٹھ گئے ہوں! اگر وہ ایسا کرتے تو تمھارے لیے وجہ جواز ہو سکتی تھی، مگر وہ تو ہر کام میں پیش پیش تھے۔ خندق کھودنے میں، کدال چلانے میں، مٹی ڈھونے میں، بلکہ صحابہ کے ساتھ جنگی ترانے پڑھنے میں، بھوکے اور بیدار رہنے میں، پوری جنگ میں بہ نفس نفیس محاذ پر رہنے میں سب کے ساتھ، بلکہ آگے آگے تھے۔ ’’ كَانَ ‘‘ کا لفط استمرار کے لیے ہے، یعنی اس سے بھی پہلے مکہ اور طائف میں کفار کی طرف سے آنے والی تکلیفیں برداشت کرنے میں، ہجرت کے پر خطر سفر میں، احد میں پیش آنے والے زخم اور صدمے اٹھانے میں، غرض پوری زندگی میں ہر مشکل مرحلے پر وہ سب سے آگے اور تمھارے لیے نمونہ تھے۔ پھر تمھارا بزدلی دکھانا اور کسی کام سے بچنے کی فکر کرنا کسی بھی لحاظ سے معقول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 2۔ یہ آیت گو جہاد کے بارے میں نازل ہوئی، مگر اس کے لفظ عام ہیں، اس لیے یہ ہر موقع اور محل کے لیے عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں، جن پر انھیں چلنا لازم ہے اور ان کے لیے جائز نہیں کہ اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی کے کسی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے گریز کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ ﴾ [ آل عمران : ۳۱ ] ’’کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دے گااور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ اعراف کی آیات (۱۵۶ تا ۱۵۸) اور سورۂ حشر (۷)۔ 3۔ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ: اُسوہ (نمونہ) دو طرح کا ہے، ایک اسوۂ حسنہ (اچھا نمونہ) اور دوسرا اسوۂ سیئہ (برا نمونہ)۔ اسوۂ حسنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کیونکہ آپ کی پیروی کرنے والا صراط مستقیم پر چل کر عزت و نعمت کی جنت تک پہنچ جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو بھی ہے وہ اسوۂ سیئہ ہے، جیسا کہ کفار کو جب رسولوں نے اپنی پیروی کا حکم دیا تو انھوں نے کہا : ﴿ اِنَّا وَجَدْنَا اٰبَآءَنَا عَلٰى اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰى اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ ﴾ [ الزخرف : ۲۲ ]’’بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا ہے اور بے شک ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔‘‘ 4۔ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ ....: اس اسوۂ حسنہ پر وہی لوگ چلتے ہیں اور انھی کو اس کی توفیق ملتی ہے جن میں تین وصف ہوں، ایک اللہ پر ایمان، اس سے ملاقات اور اس کے دیدار کی امید، دوسرا آخرت پر ایمان اور اس کے ثواب کی امید اور تیسرا کثرت سے اللہ کو یاد کرنا۔ ان لوگوں کو یہ تینوں چیزیں رسول کی پیروی کے لیے ہر وقت آمادہ اور مستعد رکھتی ہیں، بخلاف کافر اور منافق کے جس کا نہ اللہ پر ایمان ہے، نہ آخرت پر اور نہ کبھی اس نے اپنے مالک کو یاد کیا، تو ان لوگوں کے سامنے دنیا کی زندگی اور اس کی لذتوں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں، اس لیے وہ رسول کو نمونہ بنانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔