وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
اگرہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے لیکن وہ میری بات سچ ہوکررہی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھردوں گا
وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا....: یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ اب تم حقیقت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایمان لے آؤ اور ہم تمھاری سزا موقوف کر دیں، یا تمھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیں۔ اس طرح کی جبری ہدایت تو ہم تمھیں پہلے ہی دے سکتے تھے، مگر اس سے قیامت کی جزا و سزا بے نتیجہ ہو کر رہ جاتی اور امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا۔ اب تو ضروری ہے کہ میرا وہ قول پورا ہو جو میں نے ابلیس کے آدم کو سجدے سے انکار کے وقت اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا : ﴿ قَالَ فَالْحَقُّ وَ الْحَقَّ اَقُوْلُ (84) لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَ مِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ اَجْمَعِيْنَ ﴾ [ صٓ: ۸۴، ۸۵ ] ’’فرمایا پھر حق یہی ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں کہ میں ضرور بالضرور جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے۔‘‘