وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
اے پیغمبر اگر آپ گناہ گاروں کو اس وقت دیکھیں گے جب وہ اپنے رب کے حضور سرجھکائے کھڑے ہوں گے (اس وقت کہہ رہے ہوں گے) اے ہمارے رب اب ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا، سوآپ ہم کو واپس بھیج دیجئے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں پورا یقین ہوگیا ہے
1۔ وَ لَوْ تَرٰى اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ: پچھلی آیت میں جو فرمایا’’ ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ ‘‘ (پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) اب اس حالت کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے۔ ’’نَكَسَ يَنْكُسُ‘‘ (ن) کا معنی کسی چیز کو سر کے بل الٹا کرنا ہے، مراد ذلت، شرمندگی اور غم کے ساتھ سروں کو جھکانا ہے۔ ’’ الْمُجْرِمُوْنَ ‘‘ کے لفظ کے ساتھ ان کے اس انجام کا سبب صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ 2۔ رَبَّنَا اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا : یہاں ’’يَقُوْلُوْنَ‘‘ کا لفظ مقدر ہے، یعنی وہ سر جھکائے ہوئے یہ بات کہہ رہے ہوں گے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اگر انھیں دوبارہ واپس بھیج بھی دیا جائے تو اپنی پرانی روش ہی پر چلیں گے، فرمایا : ﴿وَ لَوْ تَرٰى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (27) بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا يُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۲۷، ۲۸ ] ’’اور کاش! تو دیکھے جب وہ آگ پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے اے کاش ! ہم واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والوں میں سے ہو جائیں۔ بلکہ ان کے لیے ظاہر ہو گیا جو وہ اس سے پہلے چھپاتے تھے اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔‘‘ کفار کے اس اظہارِ حسرت و ندامت کا ذکر متعدد آیات میں آیا ہے۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۵۳) اور مومنون (۹۹، ۱۰۰)۔ 3۔ اِنَّا مُوْقِنُوْنَ : مگر اس وقت یقین ہو جانے کا کیا فائدہ؟ جو وقت یقین کے فائدہ دینے کا تھا (یعنی دنیا میں) وہ تو انھوں نے گنوا دیا۔ دیکھیے سورۂ مومن (۸۵)۔