سورة لقمان - آیت 22

وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جس کسی نے اپنا منہ اللہ کی طرف جھکادیا (اپنی گردن اللہ کے حوالے کردی) اور اعمال حسنہ انجام دیے تو بس دین الٰہی کی مضبوط رسی اس کے ہاتھ آگئی اور انجام کار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَنْ يُّسْلِمْ وَجْهَهٗ اِلَى اللّٰهِ....: اس سے پہلے ان لوگوں کا ذکر ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی علم، ہدایت یا کتاب منیر کے بغیر جھگڑتے ہیں۔ اب ان کے مقابلے میں اس شخص کا ذکر ہے جو اپنے چہرے یعنی اپنے آپ کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کے سپرد اور اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ اپنا ہر عمل صرف اس کی رضا کے لیے کرتا ہے۔ جو وہ کہے کرتا ہے، جس سے روک دے رک جاتا ہے۔ نہ اپنی خواہش پر چلتا ہے نہ کسی دوست یا رشتہ دار کے پیچھے چلتا ہے اور نہ آبا و اجداد میں سے کسی کی راہ و رسم اختیار کرتا ہے۔ اس کی نماز، قربانی، زندگی اور موت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، فرمایا : ﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۶۲ ] ’’کہہ دے بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے، جو جہانوں کا رب ہے۔‘‘ آیت میں چہرے کو اللہ کے حوالے کرنے کا ذکر ہے، مراد پورے وجود کو اللہ کے حوالے کرنا ہے۔ کیونکہ چہرہ جسم کا سب سے باشرف حصہ ہے، اس کے تابع ہونے سے پورا وجود تابع ہو جاتا ہے۔ وَ هُوَ مُحْسِنٌ : اور وہ اپنا ہر عمل اس طرح کرتا ہے گویا وہ اپنے رب کو دیکھ رہا ہے۔ سو اگر وہ اسے نہیں دیکھتا تو اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے اور وہ ہر عمل میں اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر چلتا ہے۔ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى : ’’أَمْسَكَ يُمْسِكُ إِمْسَاكًا‘‘ تھامنا، پکڑنا۔ ’’ اسْتَمْسَكَ ‘‘ میں حروف زیادہ ہونے کی وجہ سے مبالغہ ہے، یعنی ’’اچھی طرح پکڑ لیا۔‘‘ ’اَلْعُرْوَةُ‘‘ کڑا یا حلقہ یا رسی کا کنارا جسے لٹکتے ہوئے گرنے سے بچنے کے لیے پکڑ لیا جائے اور ’’ الْوُثْقٰى ‘‘ ’’أَوْثَقُ‘‘ کا مؤنث ہے ’’سب سے مضبوط۔‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دینے والا یہ وہ شخص ہے جس نے اسلام کی رسی کے مضبوط حلقے کو اچھی طرح تھام لیا ہے۔ اسے بلندی سے پستی میں یا جہنم میں گرنے کا کوئی خطرہ نہیں۔ شیطان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اسی حلقے کو تھامے ہوئے آخرکار وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے گا اور اس کی جنت کا وارث بن جائے گا۔ بخلاف ان لوگوں کے جو کسی علم، ہدایت یا کتاب منیر کے بغیر جھگڑتے ہیں کہ انھوں نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک گرنے والے کھوکھلے تودے کے کنارے پر رکھی ہے، جو انھیں لے کر جہنم کی آگ میں گرنے والا ہے۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۱۰۹)۔ وَ اِلَى اللّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ : ’’ اِلَى اللّٰهِ ‘‘ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا کہ تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے، کسی اور کی طرف نہیں، وہی ہر کام کی جزا دے گا۔