مَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
جوشخص اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہے (تو اسے چاہیے کہ اس کی تیاری کرتا رہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وقت آنے ہی والا ہے اور وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ ....: اس آیت میں ایمان والوں کے لیے خوش خبری ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی امید رکھتا ہے وہ اس چند روزہ آزمائش پر صبر کرنے اور زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی کوشش کرے، تو اس کی امید ضرور پوری ہو گی، کیونکہ اللہ کا مقرر کردہ وقت ضرور آنے والا ہے اور وہ بندے کی دعا کو اور اس کے عمل کو بلکہ کائنات کی ہر آواز اور ہر کام کو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ قرآن مجید میں دو قسم کے لوگ بیان ہوئے ہیں، ایک وہ جو قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی امید رکھتے ہیں، ان کا اس آیت میں ذکر ہے اور سورۂ کہف کی آخری آیت میں بھی، فرمایا : ﴿ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖ اَحَدًا ﴾ [ الکہف : ۱۱۰ ] ’’پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘ دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی امید اور اس کا شوق رکھنے والے کو خوش خبری ہو کہ اس کی امید ضرور پوری ہو گی اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو وقت مقرر کر رکھا ہے وہ ضرور آنے والا ہے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ اس وقت سے پہلے ملنے والی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اخلاص کے ساتھ اپنے رب کو راضی کرنے والے صالح اعمال کر لے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللّٰهِ أَحَبَّ اللّٰهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللّٰهِ كَرِهَ اللّٰهُ لِقَاءَهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِهِ إِنَّا لَنَكْرَهُ الْمَوْتَ، قَالَ لَيْسَ ذَاكَ وَلٰكِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَهُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَانِ اللّٰهِ وَكَرَامَتِهِ فَلَيْسَ شَيْءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ فَأَحَبَّ لِقَاءَ اللّٰهِ وَأَحَبَّ اللّٰهُ لِقَاءَهُ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَابِ اللّٰهِ وَ عُقُوْبَتِهِ فَلَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَهَ إِلَيْهِ مِمَّا أَمَامَهُ كَرِهَ لِقَاءَ اللّٰهِ وَ كَرِهَ اللّٰهُ لِقَاءَهُ )) [بخاري، الرقاق، باب من أحب لقاء اللہ أحب اللّٰہ لقاءہ : ۶۵۰۷ ] ’’جو شخص اللہ کی ملاقات محبوب رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات محبوب رکھتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات ناپسند کرتا ہے۔‘‘ اس پر عائشہ رضی اللہ عنھا یا آپ کی کسی اور بیوی نے کہا : ’’ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ بات نہیں، بلکہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی اور اس کے باعزت ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اسے اس سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہوتی جو اس کے آگے آنے والی ہے اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی سزا کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اسے اس سے زیادہ ناپسندیدہ چیز کوئی نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہے تو وہ اللہ کی ملاقات ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات ناپسند کرتا ہے۔‘‘ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی دعا نماز میں پڑھی، جس میں اللہ تعالیٰ سے کئی چیزیں مانگی گئی ہیں، اس میں یہ الفاظ بھی ہیں: (( وَ أَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلٰی وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلٰی لِقَائِكَ فِيْ غَيْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ)) [ نسائي، السھو، نوع آخر : ۱۳۰۶ ]’’(اے اللہ!) اور میں تجھ سے تیرے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا اور تیری ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں، کسی تکلیف کے بغیر جو نقصان پہنچانے والی ہے اور کسی فتنے کے بغیر جو گمراہ کرنے والا ہے۔‘‘ لوگوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی نہ امید رکھتا ہے نہ شوق، ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا وَ رَضُوْا بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِهَا وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ (7) اُولٰٓىِٕكَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ﴾ [ یونس : ۷، ۸ ] ’’بے شک وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور وہ لوگ جو ہمار ی آیات سے غافل ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اس کے بدلے جو وہ کمایا کرتے تھے۔‘‘