سورة النمل - آیت 76

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور بلاشبہ یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر وہ بیان کرتا ہے جن میں وہ اکثر اختلاف رکھتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَقُصُّ ....: مفسر رازی نے پچھلی آیات کے ساتھ اس آیت کی مناسبت یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلق کی ابتدا اور اسے دوبارہ زندہ کرنے کے اثبات پر گفتگو کرنے کے بعد اب نبوت پر بحث شروع فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں چونکہ قرآن ہی سب سے بڑی دلیل ہے، اس لیے سب سے پہلے اس کا ذکر فرمایا، یعنی یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہیں۔ بنی اسرائیل کے لیے جو تورات و انجیل کے عالم ہیں، اس کی یہ بات دلیل ہے کہ یہ ان کی اکثر وہ اشیاء بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ان میں حق اور درست بات کیا ہے۔ اَكْثَرَ الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ: یہود و نصاریٰ بہت سے فرقوں میں بٹ گئے تھے، اس بنا پر ان کے درمیان سخت اختلافات پائے جاتے تھے، مثلاً عیسیٰ علیہ السلام کو یہودی جھوٹا اور ولد الزنا کہتے تھے۔ نصاریٰ نے یہاں تک غلو کیا کہ انھیں عین ذاتِ الٰہی یا اس کا بیٹا بنا بیٹھے۔ (نعوذ باللہ) اسی طرح اور بھی بہت سے امور تھے جن میں ان کے درمیان سخت اختلافات پائے جاتے تھے۔ ان میں حق اور اعتدال کی راہ قرآن نے واضح کی جو قرآن کے حق ہونے کی دلیل ہے۔ (دیکھیے مائدہ : ۴۸) اگر وہ اس راہ کو اختیار کرتے تو ان میں ہرگز کوئی اختلاف نہ رہتا اور ان سب کی فرقہ بندی ختم ہو جاتی۔ 3۔ یہ جو فرمایا کہ قرآن بنی اسرائیل کے لیے اکثر وہ چیزیں بیان کرتا ہے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، تو اس میں اشارہ ہے کہ اس نے بہت سی باتیں جن میں ان کا اختلاف ہے، بیان نہیں کیں، کیونکہ ان کے ذکر کرنے سے کوئی اہم مقصد حاصل نہیں ہوتا تھا اور اس لیے کہ اس میں ان کی بعض خطاؤں اور لغزشوں کی پردہ پوشی ہے جو ان سے سرزد ہوئیں۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کے ذکر نہ کرنے کو اپنی طرف سے عفو قرار دیا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ يٰاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِيْنٌ﴾ [ المائدۃ : ۱۵ ] ’’اے اہل کتاب! بے شک تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے، جو تمھارے لیے ان میں سے بہت سی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے، جو تم کتاب میں سے چھپایا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے۔ بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔‘‘