أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اچھا بتاؤ وہ کون ہے جو مخلوقات کی پیدائش شروع کرتا ہے پھر اسے دہراتا ہے اور وہ کون ہے جو آسمان وزمین کے کارخانہ ہائے رزق سے تمہیں روزی دے رہا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (اے پیغمبر) ان سے کہو اگر تم (اپنے رویے میں) سچے ہو اور انسانی عقل وبصیرت کی اس عالمگیر شہادت کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل ہے) تو اپنی دلیل پیش کرو
1۔ اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ: یہ سادہ سی بات، جسے ایک جملے میں بیان کر دیا گیا ہے، اپنے اندر ایسی تفصیلات رکھتی ہے کہ آدمی ان کی گہرائی میں جتنی دور تک اترتا جاتا ہے اتنے ہی وجود الٰہ اور وحدت الٰہ کے شواہد اسے ملتے چلے جاتے ہیں۔ پہلے تو بجائے خود تخلیق ہی کو دیکھیے، انسان کا علم آج تک یہ راز نہیں پاسکا ہے کہ زندگی کیسے اور کہاں سے آتی ہے؟! اس وقت تک مسلّم سائنٹفک حقیقت یہی ہے کہ بے جان مادے کی محض ترکیب سے خود بخود جان پیدا نہیں ہو سکتی۔ حیات کی پیدائش کے لیے جتنے عوامل درکار ہیں ان سب کا ٹھیک تناسب کے ساتھ بالکل اتفاقاً جمع ہو کر زندگی کا آپ سے آپ وجود میں آجانا دہریوں کا ایک غیر علمی مفروضہ تو ضرور ہے، لیکن اگر ریاضی کے قانون بخت و اتفاق کو اس پر منطبق کیا جائے تو اس کے وقوع کا امکان صفر سے زیادہ نہیں نکلتا۔ اب تک تجربی طریقے پر سائنس کے معملوں میں بے جان مادے سے جاندار مادہ پیدا کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں، تمام ممکن تدابیر استعمال کرنے کے باوجود سب قطعی ناکام ہو چکی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو چیز معلوم کی جا سکی ہے وہ صرف وہ مادہ ہے جسے اصطلاح میں ’’ڈی۔ این۔اے‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مادہ ہے جو زندہ خلیوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ جوہر حیات تو ضرور ہے مگر خود جاندار نہیں۔ زندگی اب بھی بجائے خود ایک معجزہ ہی ہے، جس کی کوئی علمی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکی ہے کہ یہ ایک خالق کے امر و ارادہ اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد آگے دیکھیے، زندگی محض ایک مجرد صورت میں نہیں، بلکہ بے شمار متنوّع صورتوں میں پائی جاتی ہے۔ اس وقت تک روئے زمین پر حیوانات کی تقریباً ۱۰ لاکھ اور نباتات کی تقریباً ۲ لاکھ انواع کا پتا چلا ہے، یہ لکھوکھہا انواع اپنی ساخت اور نوعی خصوصیات میں ایک دوسرے سے ایسا واضح اور قطعی امتیاز رکھتی ہیں اور قدیم ترین معلوم زمانے سے اپنی اپنی صورت نوعیہ کو اس طرح مسلسل برقرار رکھتی چلی آ رہی ہیں کہ ایک خدا کے تخلیقی منصوبے کے سوا زندگی کے اس عظیم تنوع کی کوئی اور معقول توجیہ کر دینا کسی ڈارون کے بس کی بات نہیں ہے۔ آج تک کہیں بھی دو نوعوں کے درمیان کی کوئی ایک کڑی بھی نہیں مل سکی ہے جو ایک نوع کی ساخت اور خصوصیات کا ڈھانچہ توڑ کر نکل آئی ہو اور ابھی دوسری نوع کی ساخت اور خصوصیات تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہو۔ متحجرات کا پورا ریکارڈ اس کی نظیر سے خالی ہے اور موجودہ حیوانات میں بھی یہ خنثیٰ مشکل کہیں نہیں ملا ہے۔ آج تک کسی نوع کا جو فرد بھی ملا ہے، اپنی پوری صورت نوعیہ کے ساتھ ہی ملا ہے اور ہر وہ افسانہ جو کسی مقصود کڑی کے بہم پہنچ جانے کا وقتاً فوقتاً سنا دیا جاتا ہے، تھوڑی مدت بعد حقائق اس کی ساری پھونک نکال دیتے ہیں۔ اس وقت یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل اٹل ہے کہ ایک صانع، حکیم، ایک الخالق، الباری، المصور ہی نے زندگی کو یہ لاکھوں متنوّع صورتیں عطا کی ہیں۔ یہ تو ہے ابتدائے خلق کا معاملہ، اب ذرا اعادۂ خلق پر غور کیجیے۔ خالق نے ہر نوع حیوانی اور نباتی کی ساخت و ترکیب میں وہ حیرت انگیز نظام العمل رکھ دیا ہے جو اس کے بے شمار افراد میں سے بے حد و حساب نسل ٹھیک اسی کی صورتِ نوعیہ اور مزاج و خصوصیات کے ساتھ نکالتا چلا جاتا ہے اور کبھی جھوٹوں بھی ان کروڑ ہا کروڑ چھوٹے چھوٹے کارخانوں میں یہ بھول چوک نہیں ہوتی کہ ایک نوع کا کوئی کارخانۂ تناسل کسی دوسری نوع کا ایک نمونہ نکال کر پھینک دے۔ جدید علم تناسل کے مشاہدات اس معاملے میں حیرت انگیز حقائق پیش کرتے ہیں۔ ہر پودے میں یہ صلاحیت رکھ دی گئی ہے کہ اپنی نوع کا سلسلہ آگے کی نسلوں تک جاری رکھنے کے لیے ایسا مکمل انتظام کرے جس سے آنے والی نسل اس کی نوع کی تمام امتیازی خصوصیات کی حامل ہو اور اس کا ہر فرد دوسری تمام انواع کے افراد سے اپنی صورت نوعیہ میں ممیز ہو۔ یہ بقائے نوع اور تناسل کا سامان ہر پودے کے ایک خلیے کے ایک حصہ میں ہوتا ہے، جسے بمشکل انتہائی طاقت ور خوردبین کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ چھوٹا سا انجینئر پوری صحت کے ساتھ پودے کے سارے نشوونما کو حتماً اسی راستے پر ڈالتا ہے جو اس کی اپنی صورت نوعیہ کا راستہ ہے۔ اسی کی بدولت گیہوں کے ایک دانے سے آج تک جتنے پودے بھی دنیا میں کہیں پیدا ہوئے ہیں، انھوں نے گیہوں ہی پیدا کیا ہے۔ کسی آب و ہوا یا کسی ماحول میں یہ حادثہ رونما نہیں ہوا کہ دانۂ گندم کی نسل سے کوئی ایک ہی دانۂ جو پیدا ہوتا۔ ایسا ہی معاملہ حیوانات اور انسان کا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کی تخلیق بھی بس ایک دفعہ ہو کر نہیں رہ گئی، بلکہ ناقابل تصور وسیع پیمانے پر ہر طرف اعادۂ خلق کا ایک عظیم کارخانہ چل رہا ہے جو ہر نوع کے افراد سے پیہم اسی نوع کے بے شمار افراد وجود میں لاتا چلا جا رہا ہے۔ اگر کوئی شخص توالدو تناسل کے اس خوردبینی تخم کو دیکھے جو تمام نوعی امتیازات اور موروثی خصوصیات کو اپنے ذرا سے وجود کے بھی محض ایک حصے میں لیے ہوئے ہوتا ہے اور پھر اس انتہائی نازک اور پیچیدہ عضوی نظام اور بے انتہا لطیف و پر پیچ عملیات کو دیکھے کہ جن کی مدد سے ہر نوع کے ہر فرد کا تخمِ تناسل اُسی نوع کا فرد وجود میں لاتا ہے، تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی تصوّر نہیں کر سکتا کہ ایسا نازک اور پیچیدہ نظام العمل کبھی خود بخود بن سکتا ہے اور پھر مختلف انواع کے اربوں ملین افراد میں آپ سے آپ ٹھیک چلتا بھی رہ سکتا ہے۔ یہ چیز نہ صرف اپنی ابتدا کے لیے ایک صانع حکیم چاہتی ہے، بلکہ ہر آن اپنے درست طریقہ پر چلتے رہنے کے لیے بھی ایک ناظم و مدبّر اور ایک حی و قیوم کی طالب ہے جو ایک لحظہ کے لیے بھی ان کارخانوں کی نگرانی و راہ نمائی سے غافل نہ ہو۔ یہ حقائق ایک دہریے کے انکارِ خدا کی بھی اسی طرح جڑ کاٹ دیتے ہیں جس طرح ایک مشرک کے شرک کی۔ کون احمق یہ گمان کر سکتا ہے کہ خدائی کے اس کام میں کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی ذرہ برابر بھی کوئی حصہ رکھتا ہے، اور کون صاحبِ عقل آدمی تعصب سے پاک ہو کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا کارخانۂ خلق و اعادۂ خلق اس کمال حکمت و نظم کے ساتھ اتفاقاً شروع ہوا اور آپ سے آپ چلے جا رہا ہے۔ (تفہیم القرآن) 2۔ وَ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ: رزق دینے کا معاملہ بھی اتنا سادہ نہیں ہے جتنا سرسری طور پر کوئی شخص ان مختصر الفاظ کو پڑھ کر محسوس کرتا ہے۔ اس زمین پر لاکھوں انواع حیوانات کی اور لاکھوں ہی نباتات کی پائی جاتی ہیں۔ جن میں سے ہر ایک کے اربوں افراد موجود ہیں اور ہر ایک کی غذائی ضروریات الگ ہیں۔ خالق نے ان میں سے ہر نوع کی غذا کا سامان اس کثرت سے اور ہر ایک کی دسترس کے اس قدر قریب فراہم کیا ہے کہ کسی نوع کے افراد بھی یہاں غذا پانے سے محروم نہیں رہ جاتے، اور پھر اس انتظام میں زمین اور آسمان کی اتنی مختلف قوتیں مل جل کر کام کرتی ہیں جن کا شمار مشکل ہے۔ گرمی، روشنی، ہوا، پانی اور زمین کے مختلف اقسام کے مادوں کے درمیان اگر ٹھیک تناسب کے ساتھ تعاون نہ ہو تو غذا کا ایک ذرّہ بھی وجود میں نہیں آ سکتا۔ کون شخص تصور کر سکتاہے کہ یہ حکیمانہ انتظام ایک مدبر کی تدبیر اور سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر یوں ہی اتفاقاً ہو سکتا تھا؟ اور کون اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس انتظام میں کسی جنّ، فرشتے یا کسی بزرگ کی روح کا کوئی عمل دخل ہے؟ (تفہیم القرآن) 3۔ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ: یعنی اس چیز کی کوئی دلیل لاؤ کہ اللہ کے سوا یا اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے۔ ظاہر ہے اس پر ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ مَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ ﴾ [ المؤمنون : ۱۱۷ ]’’اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘ تو جب تمھارے پاس اس کی کوئی دلیل ہی نہیں تو یہ بات تمھاری سمجھ میں کیسے آتی ہے کہ پیدا کرنا، رزق دینا اور دوسرے یہ تمام کام تو اللہ کے ہوں، مگر عبادت اس کے سوا یا اس کے ساتھ کسی اور کی کی جائے؟ ’’ بُرْهَانَكُمْ ‘‘ (اپنی دلیل) اس لیے فرمایا کہ فی الواقع تو کوئی دلیل نہیں، تم نے اگر کوئی دلیل بنا رکھی ہے تو پیش کرو۔