وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور (دیکھو) اگر تمہیں اس (کلام) کی سچائی میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل کیا ہے۔ تو (اس کا فیصلہ بہت آسان ہے۔ اگر یہ محض ایک انسانی دماغ کی بناوت ہے، تو تم بھی انسان ہو۔ زیادہ نہیں) اس کی سی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن (طاقتوں) کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلا لو
1۔ سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو ”لَا رَيْبَ فِيْهِ“ قرار دیا، اب فرمایا کہ ( اس کتاب میں کوئی شک تو نہیں لیکن) اگر تم اس کے بارے میں کسی ادنیٰ سے شک میں بھی مبتلا ہو تو اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آؤ۔ یہ چیلنج پہلے اس کتاب جیسی ایک کتاب لانے کا کیا گیا۔ [ بنی إسرائیل : ۸۸ ] پھر اس جیسی دس سورتیں لانے کا۔ [ ہود : ۱۳ ] پھر مکہ ہی میں اس جیسی ایک سورت لانے کا چیلنج کیا گیا۔ [ یونس : ۳۸ ] اب مدینہ میں یہ چیلنج دہرایا جا رہا ہے، کیونکہ سورۂ بقرہ مدنی ہے۔ 2۔پچھلی دو آیات میں شرک کی تردید اور توحید کی دعوت ہے، ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت ہے۔ 3۔ عَبْدِنَا: اگرچہ تمام بندے اللہ تعالیٰ ہی کے بندے ہیں مگر ’’ ہمارے بندے‘‘ سے مراد ہمارا خاص بندہ ہے، جیسے : ’’بیت اللہ‘‘ اور ’’ناقۃ اللّٰہ۔‘‘ اسے اضافت تشریفی کہتے ہیں ۔ 4۔ ہر زمانے میں جو چیز کمال کو پہنچی ہوئی تھی اس زمانے کے پیغمبر کو ایسا معجزہ دیا گیا جس کے سامنے انسانی کمال عاجز اور بے بس ہو، جیسے فرعون کے جادوگر اور عصائے موسیٰ، اور عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے با کمال طبیب اور عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہلِ عرب کو اپنی فصاحت و بلاغت پر فخر تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا معجزہ عطا فرمایا جس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال سیکڑوں برس گزرنے کے باوجود نہ کوئی پیش کر سکا نہ کر سکے گا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ عنکبوت ( ۴۷تا۵۱)۔