إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ
بلاشبہ اس واقعہ میں عبرت کی بہت بڑی نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں
1۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً: ایک ہی پانی کے ذریعے سے کسی کو بچا لینے اور کسی کو غرق کر دینے میں یقیناً بہت بڑی نشانی ہے کہ اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قوموں اور سلطنتوں میں انقلاب آتے رہتے ہیں، مگر ایسے حیرت انگیز اور عظیم الشان واقعہ کے ساتھ انقلاب ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ 2۔ وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِيْنَ: اس جگہ ’’ اَكْثَرُهُمْ ‘‘ سے مراد ان لوگوں میں سے اکثر مراد نہیں جو فرعون کے ساتھ آئے تھے، کیونکہ وہ تو سب غرق ہو گئے اور غرق ہوتے وقت ایمان لائے بھی تو بے سود۔ (دیکھیے یونس : ۹۰، ۹۱) مراد مصر میں فرعون سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ ہیں کہ ان کے اکثر ایمان نہیں لائے، بہت کم ایمان لائے۔ جن میں فرعون کے جادو گر، اس کی بیوی آسیہ اور اس کی قوم کے چند لڑکے شامل تھے۔ (دیکھیے یونس : ۸۳) اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی بھی ہے کہ اتنے عظیم الشان معجزے دیکھ کر بھی ان کے اکثر ایمان نہیں لائے تو آپ اپنی قوم کے اکثر لوگوں کے ایمان نہ لانے پر اتنے غمگین کیوں ہیں؟ یہاں مفسرین نے موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں میں ایک خاتون کا ذکر کیا ہے، جس کے بتانے پر بنی اسرائیل یوسف علیہ السلام کی میّت کو ان کی قبر سے نکال کر ساتھ لے گئے تھے اور جس نے اس شرط پر موسیٰ علیہ السلام کو اس قبر کی نشان دہی کی تھی کہ وہ اس بات کی ضمانت دیں کہ اسے جنت میں ان کا ساتھ ملے گا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں، میں نے مفسرین کی دیکھا دیکھی اسے نقل کر دیا ہے، ورنہ اس میں نکارت ہے، یعنی یہ واقعہ صحیح نہیں ہے۔