إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ
اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ایک بڑی نشانی نازل کردیں کہ اس کے سامنے ان کی گردنیں جھک کررہ جائیں (٣)۔
اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ....: آسمان سے نشانی اتارنے سے مراد وہ معجزے دکھانا ہے جن کا وہ مطالبہ کرتے تھے۔ (سعدی) یعنی اگر ہم چاہیں تو آسمان سے کوئی نشانی اتار دیں، جس کے آنے کے بعد ان کے لیے مانے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہے، لیکن ہم ایسا نہیں کرتے، کیونکہ دنیا امتحان کا گھر ہے اور ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ جو شخص بھی ایمان لائے سوچ سمجھ کر اپنے اختیار سے لائے، نہ کہ کسی دباؤ اور مجبوری کے تحت۔ اس لیے ہم نے انبیاء و رسل بھیجے، صحیفے اور کتابیں نازل فرمائیں۔ یہ حقیقت قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۹۹)، ہود (۱۱۸، ۱۱۹) اور غاشیہ (۲۱، ۲۲) اور ہم اس لیے بھی نشانی نہیں اتارتے کہ ایمان وہ معتبر ہے جو بن دیکھے ہو، جب غیب ہی سے پردہ اٹھ گیا، پھر کوئی ایمان لائے بھی تو اسے کوئی فائدہ نہیں، جیسا کہ فرمایا: ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ فِيْ عِبَادِهٖ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ﴾ [المؤمن : ۸۵ ] ’’پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا، جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ حجر (۶ تا ۸) اور فرقان (۲۱، ۲۲)۔