إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
مگرجس شخص نے توبہ کی، ایمان لایا اور عمل صالح کیا، تو خدا اس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے (١٧)۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے
1۔ اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا....: ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’اہلِ شرک میں سے کچھ لوگوں نے قتل کیے اور بہت کیے اور زنا کیے اور بہت کیے، پھر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’آپ جو بات کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھی ہے، اگر آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ ہم نے جو کچھ کیا اس کا کوئی کفارہ ہے؟‘‘ تو یہ آیت اتری: ﴿وَ الَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ ....﴾ [الفرقان : ۶۸ ] اور یہ آیت اتری: ﴿يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ﴾ [الزمر : ۵۳ ] ’’اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ۔‘‘ [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ....: ۱۲۲ ] یہ آیت ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں، یہی عام معافی کا دن تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں انسانوں کو سہارا دے کر مستقبل کے بگاڑ سے بچا لیا اور انھیں امید کی روشنی دکھا کر اصلاح پر آمادہ کیا۔ اگر ان سے کہا جاتا کہ جو گناہ تم کر چکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح بچ نہیں سکتے تو وہ ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھنس جاتے۔ توبہ کی اس نعمت نے بگڑے ہوئے لوگوں کو کس طرح سنبھالا، اس کا اندازہ ان بہت سے واقعات سے ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آئے، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کی محبت میرے دل میں ڈال دی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی : ’’اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجیے، تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟‘‘ میں نے کہا : ’’میری ایک شرط ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تیری کیا شرط ہے؟‘‘ میں نے کہا: ((أَنْ يُّغْفَرَ لِيْ، قَالَ أَمَا عَلِمْتَ يَا عَمْرُو! أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَ أَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قبْلَهُ؟ )) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ و کذا الھجرۃ والحج : ۱۲۱ ] ’’(میری شرط یہ ہے) کہ میرے گناہ معاف ہوں (جو اب تک کیے ہیں)۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے عمرو! کیا تو جانتا نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے کے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے؟ اور یہ کہ ہجرت اپنے سے پہلے گناہوں کو مٹا دیتی ہے؟ اور یہ کہ حج اپنے سے پہلے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے؟‘‘ 2۔ اللہ تعالیٰ نے برائیوں کو نیکیوں میں بدلنے کے لیے تین شرطیں رکھی ہیں، پہلی توبہ، یعنی گناہ سے باز آ جانا، گزشتہ گناہوں پر ندامت اور آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا عزم۔ دوسری شرط ایمان ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول ہی نہیں اور تیسری شرط عمل صالح ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق عمل کرنا۔ ’’ عَمَلًا صَالِحًا ‘‘ نکرہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ کیا ہے ’’اورعمل کیا، کچھ نیک عمل۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے ترجمہ کیا ہے ’’اور کیا کچھ نیک کام۔‘‘ اس میں بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں توبہ اور ایمان کے ساتھ تھوڑے عمل صالح کی بھی بہت قدر ہے۔ 3۔ فَاُولٰٓىِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍ : اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں انھیں گناہوں کی جگہ نیکیوں کی توفیق دے گا، کفر اور شرک کی جگہ وہ ایمان اور توحید پر قائم ہوں گے، مومنوں کو قتل کرنے کے بجائے میدان جنگ میں کفار کو قتل کریں گے۔ زنا کی جگہ پاک دامنی پر، جھوٹ کی جگہ صدق پر اور نافرمانی کی جگہ فرماں برداری پر قائم ہوں گے۔ (و علی ہذا القیاس) یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما سے معتبر سند کے ساتھ طبری نے نقل فرمائی ہے۔ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے تمام گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا، یہ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنِّيْ لَأَعْلَمُ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُوْلًا الْجَنَّةَ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنْهَا، رَجُلٌ يُؤْتٰی بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقَالُ اعْرِضُوْا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوْبِهِ وَارْفَعُوْا عَنْهُ كِبَارَهَا، فَتُعْرَضُ عَلَيْهِ صِغَارُ ذُنُوْبِهِ، فَيُقَالُ عَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَ كَذَا، كَذَا وَ كَذَا، وَ عَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَ كَذَا، كَذَا وَ كَذَا، فَيَقُوْلُ نَعَمْ، لَا يَسْتَطِيْعُ أَنْ يُّنْكِرَ، وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنْ كِبَارِ ذُنُوْبِهِ أَنْ تُّعْرَضَ عَلَيْهِ، فَيُقَالُ لَهُ فَإِنَّ لَكَ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً، فَيَقُوْلُ رَبِّ! قَدْ عَمِلْتُ أَشْيَاءَ لَا أَرَاهَا هٰهُنَا، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ ضَحِكَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُهُ)) [مسلم، الإیمان، باب أدنٰی أہل الجنۃ منزلۃ فیھا : ۱۹۰ ] ’’میں اس شخص کو جانتا ہوں جو جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخری اور جہنم سے نکلنے والوں میں سب سے آخری ہو گا، وہ ایسا آدمی ہو گا جسے قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا : ’’اس کے سامنے اس کے چھوٹے گناہ پیش کرو اور اس کے بڑے گناہ بچائے رکھو۔‘‘ تو اس کے سامنے اس کے چھوٹے گناہ پیش کیے جائیں گے اور کہا جائے گا : ’’تو نے فلاں فلاں دن یہ یہ عمل کیے تھے اور فلاں فلاں دن یہ یہ عمل کیے تھے؟‘‘ وہ کہے گا : ’’ہاں!‘‘ انکار نہیں کر سکے گا اور وہ اپنے بڑے گناہوں کے پیش کیے جانے سے ڈر رہا ہو گا، تو اس سے کہا جائے گا : ’’تمھارے لیے ہر برائی کی جگہ ایک نیکی ہے۔‘‘ تو وہ کہے گا : ’’اے میرے رب! میں نے کئی کام کیے ہیں جو مجھے یہاں دکھائی نہیں دے رہے۔‘‘ (ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) : ’’تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہو گئیں۔‘‘ 4۔ اہلِ علم نے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کی توجیہ یہ بیان فرمائی ہے کہ گناہ جتنی بار یاد آتے ہیں ان پر ندامت اور استغفار مسلسل نیکی ہے، اسی طرح توبہ کے بعد یہ عزم کہ آئندہ اگر موقع ملا تو میں ہمیشہ برائی کے بجائے نیکی کروں گا، یہ عزم ایسی نیکی ہے جو انسان کو جنت کا ابدی وارث بنا دیتی ہے۔ گزشتہ پر ندامت یا آئندہ کا عزم اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے کا باعث بن جائے گا۔ (بقاعی) ایک اور توجیہ یہ ہے کہ وہ شخص جس نے گناہ کیا ہی نہیں، مثلاً زنا یا چوری کی ہی نہیں، اسے گناہ سے بچنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی، بخلاف اس شخص کے جو زنا کا مرتکب رہا ہے، اسے زنا چھوڑنے میں جس قدر دشواری پیش آتی ہے اسے برداشت کرنا اور گناہ نہ کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ 5۔ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : بظاہر گناہوں کو نیکیوں میں بدلنا بعید معلوم ہوتا ہے، اس کا جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے گناہوں پر پردہ ڈالنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے، اس سے یہ کرم کچھ بھی بعید نہیں۔