وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا
اور وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ وہ خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے
وَ الَّذِيْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا....: لوگوں کے ساتھ اور اپنے رب کے ساتھ رویے کے بعد ان کے مالی معاملے کا ذکر ہے۔ اسراف کا اطلاق کسی کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے، مثلاً کھانے پینے یا لباس یا مکان یا شادی بیاہ وغیرہ پر بے دریغ خرچ کر دینا (ایک بلب کی ضرورت ہو تو زیادہ بلب لگا دینا، تھوڑے پانی سے کام چلتا ہو تو بے دریغ پانی بہا دینا) یا اپنی ہمت اور مقدور سے زیادہ خرچ کر دینا (پھر قرض اتارتے رہنا یا مانگنا شروع کر دینا) ایسی فضول خرچیوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ پھر اسراف کی ایک قسم تبذیر ہے، جس کا معنی ہے بلاضرورت خرچ کرنا، مثلاً دن کو بھی گلی میں بلب جلائے رکھنا، یا پانی کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دینا۔ اسی طرح ناجائز کاموں میں خرچ کرنا بھی تبذیر ہے، جیسے شراب، زنا، جوئے، گانے بجانے یا آتش بازی وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ اسراف کی ضد ’’قتور‘‘ ہے، جو ’’قَتَرَ يَقْتُرُ (ن، ض) قَتْرًا وَ قُتُوْرًا‘‘ سے ہے۔ باب ’’افعال‘‘ اور ’’تفعیل‘‘ سے ’’إِقْتَارٌ‘‘ اور ’’تَقْتِيْرٌ‘‘ بھی اسی معنی میں آتا ہے، یعنی خرچ میں تنگی کرنا، شدید بخل کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا، اپنی ذات اور اہل و عیال کی جائز ضروریات میں بھی بخل کرنا۔ اسراف اور تقتیر کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاد (میانہ روی) ہے، یعنی اتنا خرچ کرنا جتنی ضرورت ہے اور جتنی ہمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ’’ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا‘‘کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ’’قَوَامٌ‘‘ دو چیزوں کے عین درمیان کو کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۱۴۲)، اعراف (۳۱) اور بنی اسرائیل (۲۶، ۲۹)۔