لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ ہر جان کے لیے وہی ہے، جیسی کچھ اس کی کمائی ہے۔ جو کچھ اسے پانا ہے، وہ بھی اس کی کمائی سے ہے، اور جس کے لیے اسے جواب دہ ہونا ہے، وہ بھی اس کی کمائی ہے (پس ایمان والوں کی صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ) خدایا ! اگر ہم سے (سعی و عمل میں) بھول چوک ہوجائے تو اس کے لیے نہ پکڑیوں اور ہمیں بخش دیجیو ! خدایا ! ہم پر بندھنوں اور گرفتاریوں کا بوجھ نہ ڈالیو جیسا ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں ! خدایا ! بوجھ ہم سے نہ اٹھوائیو جس کے اٹھانے کی ہم (ناتوانوں ٰ میں سکت نہ ہو ! خدایا ہم سے درگزر کر ! خدایا ہم پر رحم کر ! خدایا ! تو ہی ہمارا مالک و آقا ہے۔ پس ان (ظالموں) کے مقابلے میں جن کا گروہ کفر کا گروہ ہے، ہماری مدد فرما
یہ اور اس سے پہلی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے موقع پر سدرۃ المنتہی کے پاس عطا فرمائی گئیں۔ [مسلم، الإیمان، باب فی ذکر سدرۃ المنتہٰی:۱۷۳ ] ان آیات کی فضیلت میں کئی احادیث آئی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے تو وہ اس کے لیے کافی ہوں گی۔‘‘ [بخاری، فضائل القرآن، باب فضل سورۃ البقرۃ:۵۰۰۹، عن أبی مسعود رضی اللّٰہ عنہ ] ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انھوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی، انھوں نے سر اٹھایا، پھر فرمایا:’’یہ آسمان کا دروازہ ہے جو آج کھولا گیا ہے، آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔‘‘ پھر اس دروازے سے ایک فرشتہ اترا۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا:’’یہ ایک فرشتہ ہے جو آج زمین کی طرف نازل ہوا ہے اور آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا۔‘‘ پھر اس فرشتے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کہا:’’دو نوروں کی خوش خبری سنیے، یہ دونوں صرف آپ کو عطا کیے گئے ہیں، آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کیے گئے۔ ایک نور سورۂ فاتحہ ہے اور دوسرا نور سورۂ بقرہ کی آخری آیات ہیں، آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے توآپ کو مانگی ہوئی چیز مل جائے گی۔‘‘ [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل الفاتحۃ و خواتیم سورۃ البقرۃ:۸۰۶ ] نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس میں سے اس نے دو آیتیں نازل فرمائیں جن کے ساتھ سورۂ بقرہ کا اختتام کیا، جس گھر میں بھی وہ آیات تین راتیں پڑھی جائیں گی تو شیطان اس گھر کے قریب نہیں آ سکے گا۔‘‘ [ترمذي، فضائل القرآن، باب ما جاء في آخر سورۃ البقرۃ، ۲۸۸۲ وصححہ الألباني ]