لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، تم اسے ظاہر کرو، یا پوشیدہ رکھو ہر حال میں اللہ جاننے والا ہے۔ وہ تم سے ضرور اس کا حساب لے گا۔ اور پھر یہ اسی کے ہاتھ ہے کہ جسے چاہے بخش دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ ہر بات پر قادر ہے
1۔ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ:یہ پچھلی آیت میں موجود ﴿وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ﴾ کی علت ہے، یعنی جب آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک اللہ ہے تو خوب سمجھ لو کہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے۔ 2۔ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ:اس سے معلوم ہوا کہ دل کے فعل پر بھی محاسبہ ہو گا، مگر اس سے مراد دل کے وہ اعمال ہیں جن پر انسان کو اختیار ہو اور جن کا وہ پختہ ارادہ کر لے، مثلاً ایمان، کفر، کسی نیکی یا بدی کا عزم اور پختہ ارادہ، مثلاً ایک شخص دل میں کفر رکھتا ہے، یا چوری اور زنا کا عزم رکھتا ہے، مگر اسے کفر کے اظہار کا یا چوری اور زنا پر عمل کا موقع نہیں ملتا تو اس پر محاسبہ ضرور ہو گا۔ رہے وہ خیالات جو انسان کی طاقت اور اختیار سے باہر ہیں، خود بخود آتے جاتے رہتے ہیں، اگر آدمی ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے تو ان پر محاسبہ نہیں ہو گا، جیسا کہ اس سورت کی آخری آیت ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ﴾ میں ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت ﴿لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ…﴾ نازل ہوئی تو صحابہ بہت پریشان ہوئے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ہم نماز، روزہ وغیرہ اعمال تو بجا لا رہے ہیں، مگر اس آیت (دل کی باتوں پر محاسبہ) کے مطابق تو بڑی مشکل پڑے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تم بھی اہل کتاب کی طرح ”سَمِعْنَا وَ عَصَيْنَا“ کہنا چاہتے ہو، بلکہ تم یوں کہو:(( سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا، غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَيْكَ الْمَصِيْرُ )) ’’ہم نے سن لیا اور اطاعت کی، اے ہمارے رب ! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا اقرار کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت:﴿اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ﴾ نازل فرمائی اور آیت ﴿اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ﴾ کو منسوخ کر دیا اور جب اگلی آیت:﴿ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ﴾ نازل فرمائی تو اس کے ہر دعائیہ جملے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(( قَدْ فَعَلْتُ)) ’’میں نے ایسا کر دیا۔‘‘ [مسند أحمد:413؍2، ح:۹۳۶۳۔ مسلم، الإیمان، باب بیان تجاوز اللّٰہ:۱۲۵ ] واضح رہے کہ یہاں دوسری آیت سے پہلی کے منسوخ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ پہلی آیت میں جو ابہام تھا اس کی وضاحت فرما دی۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نسخ کا لفظ وضاحت کے معنی میں بھی استعمال کرتے تھے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے لیے میری امت کے لوگوں کے وہ خیالات اور وساوس معاف کر دیے گئے ہیں جو ان کے دلوں میں آئیں، تاوقتیکہ ان کو زبان پر نہ لائیں یا ان پر عمل نہ کریں۔‘‘ [مسلم، الإیمان، باب تجاوز اللّٰہ عن....: ۱۲۷۔ بخاری:۵۲۶۹ ] (ابن کثیر، شوکانی) 3۔ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ:یعنی ایسا نہیں کہ ہم بعض انبیاء کو مانتے ہوں اور بعض کا انکار کرتے ہوں، بلکہ ہم تمام انبیاء کو مانتے ہیں۔