سورة الفرقان - آیت 33

وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور یہ لوگ جب بھی تمہارے سامنے کوئی انوکھا سوال پیش کرتے ہیں ہم اس کاٹھیک اور نہایت شرح کے ساتھ جواب دے دیتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ....: ’’مَثَلٌ‘‘ کا معنی کسی چیز کے مشابہ چیز بھی ہے، ضرب المثل یا کہاوت بھی اور کسی چیز کی صفت بھی، جیسے فرمایا: ﴿مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ﴾ [الرعد : ۳۵ ] ’’اس جنت کی صفت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ (راغب) سورت کے شروع سے اللہ تعالیٰ نے کفار کے پانچ اعتراض ذکر فرمائے ہیں اور سب کا دندان شکن جواب دیا ہے، آخر میں خلاصے کے طور پر فرمایا کہ ان لوگوں نے جو شکوک و شبہات اور طعن و اعتراض پیش کیے ہیں، یا قیامت تک پیش کریں گے ہم نے سب کا ایسا جواب دیا ہے اور دیتے رہیں گے جو سراسر حق ہے اور نہایت واضح ہے، ان کے اقوال کی طرح باطل یا غیر واضح نہیں ہے۔ ’’ مَثَلٌ‘‘ سے مراد ان کے وہ سوالات، مطالبات اور اعتراضات ہیں جو انھوں نے آپ پر پیش کیے تھے اور ’’اَلْحَقُّ‘‘ سے مراد شبہے کا ازالہ اور سوال کا جواب ہے۔ (شوکانی) دیکھیے ان کا پہلا اعتراض تھا: ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا اِنْ هٰذَا اِلَّا اِفْكٌ افْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَيْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ﴾ [الفرقان : ۴ ] اسی کے ضمن میں تھا : ﴿وَ قَالُوْا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا﴾[ الفرقان : ۵ ] دوسرا اعتراض تھا: ﴿وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ لَوْ لَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا (7) اَوْ يُلْقٰى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا ﴾ [الفرقان : ۷، ۸ ] تیسرا اعتراض تھا: ﴿وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا﴾ [الفرقان: ۸ ] چوتھا اعتراض تھا: ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَا اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا﴾ [الفرقان : ۲۱ ] اور پانچواں اعتراض تھا: ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً﴾ [الفرقان : ۳۲ ] ان اعتراضات کو امثال کہنے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تیسرا اعتراض ’’ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ‘‘ بیان کرنے کے بعد فرمایا: ﴿اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا ﴾ [الفرقان : ۹ ] ’’ دیکھ انھوں نے تیرے لیے کیسی مثالیں بیان کیں، سو گمراہ ہو گئے، پس وہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔‘‘ (ابن عاشور)