سورة الفرقان - آیت 3

وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور لوگوں نے اللہ کے سوا ایسے معبود ٹھہرا لیے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود پیدا کیے جاتے ہیں اور جو اپنے لیے کسی قسم کے نفع وضرر کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ کسی کی موت اور نہ زندگی اور نہ مرنے کے بعددوبارہ زندگی بخشنے کا اختیار رکھتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اٰلِهَةً لَّا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا....: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معبود برحق ہونے کے چند معیار بیان فرمائے اور تمام مشرکوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے خداؤں کو ان معیاروں پر پرکھیں اور بتائیں کہ وہ کسی طرح بھی معبود ہو سکتے ہیں۔ وہ معیار یہ ہیں : (1) جو ہستی کوئی چیز پیدا نہ کر سکے، یا کسی چیز کی بھی خالق نہ ہو وہ معبود نہیں ہو سکتی۔ (2) جو چیز خود مخلوق ہو، اسے کسی نے پیدا کیا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے اللہ کے سوا جن کو بھی معبود بنایا گیا ہے سب مخلوق ہیں، وہ چاہے فرشتے ہوں یا جن، انسان، درخت، پتھر، بت، قبر، سورج، چاند، تارے یا کوئی اور، اس لیے انھیں معبود بنانا بہت بڑی جہالت ہے۔ (3) جو ہستی کسی دوسرے کو فائدہ یا نقصان نہ پہنچا سکتی ہو، دوسرے لفظوں میں جو ہستی حاجت روا اور مشکل کشا نہ ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ صفت ہے جسے مشرکین اللہ کے سوا بعض دوسری ہستیوں میں تسلیم کرتے ہیں، خواہ وہ جان دار ہوں یا بے جان، زندہ ہوں یا مر چکی ہوں، اور شرک کی یہی قسم سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کا ردّ اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا کہ جو چیز اپنے نفع و نقصان ہی کی مالک نہ ہو وہ کسی دوسرے کی حاجت روا یا مشکل کُشا کیسے ہو سکتی ہے! یہ معیار ایسا واضح اور زبردست ہے کہ اس کے مطابق اللہ کے سوا تمام معبود باطل قرار پاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا اور وہ ان کا بال بیکا نہ کر سکے۔ رہے بزرگان دین، خواہ وہ پیغمبر ہوں یا ولی، زندہ ہوں یا فوت ہو چکے ہوں، سب کو ان کی زندگی میں بے شمار تکلیفیں پہنچتی رہیں، لیکن وہ اپنی تکلیفیں اور بیماریاں خود رفع نہ کر سکے، تو دوسروں کی کیا کرتے، یا کیا کریں گے، وہ تو خود صرف اللہ سے دعا کرتے رہے۔ رہے شمس و قمر، تارے اور فرشتے، تو یہ سب ایسی مخلوق ہیں جن کے پاس اپنا اختیار کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ نے انھیں جس کام پر لگا دیا ہے اس کے سوا دوسرا کام کر ہی نہیں سکتے، لہٰذا وہ بھی الوہیت کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ (4) معبود برحق ہونے کا ایک معیار یہ ہے کہ وہ ہستی کسی زندہ کو مار سکتی ہو اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہو اور زندہ کرکے قبروں سے اٹھا سکتی ہو، اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر وقت زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ چیزیں پیدا کر رہا ہے، قیامت کو وہ سب کو زندہ کرکے سامنے لا کھڑا کرے گا، دوسری کسی ہستی کے اختیار میں کسی کو زندہ کرنا ہے نہ مارنا اور نہ قیامت برپا کرنا۔ اس مقام پر معبود برحق ہونے کے یہ معیار بیان ہوئے ہیں، جب کہ دوسرے مقامات پر اور بھی کئی معیار مذکور ہیں، مثلاً جو خود محتاج ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو بے جان ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو کھانا کھاتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جسے نیند یا موت آتی ہے وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو ہر چیز کا علم نہ رکھتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا، جو نہ سن سکتا ہو، نہ دیکھ سکتا ہو، نہ بول سکتا ہو، نہ جواب دے سکتا ہو وہ الٰہ نہیں ہو سکتا وغیرہ۔ (تیسیر القرآن کیلانی بتصرف)