لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
مسلمانو۔ جب پیغمبر اسلام تم میں سے کسی کو بلائیں تو ان کے بلانے کو آپس میں ایسی (معمولی) بات نہ سمجھو، جیسے تم میں سے ایک آدمی دوسرے آدمی کو بلایا کرتا ہے، اللہ ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے جو (مجمع سے) چھپ کرکھسک جاتے ہیں۔ حکم رسول کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو، ان پر کوئی آفت آپڑے یادردناک عذاب سے دوچار ہوں (٤٦)۔
1۔ لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ....: مفسرین نے اس آیت کے تین مطلب بیان فرمائے ہیں، پہلا یہ کہ ’’دُعَآءَ الرَّسُوْلِ ‘‘ کا معنی ہے رسول کا بلانا۔ اس صورت میں لفظ ’’ دُعَآءَ ‘‘ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں بلائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح معمولی نہ سمجھو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بلائیں تو حاضر ہونا واجب ہوتا ہے، جب کہ آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کا یہ حکم نہیں ہے۔ یہ مفہوم یہاں زیادہ مناسب ہے، کیونکہ اس سے پہلے اجازت طلب کرنے اور امر جامع میں موجود رہنے کا بیان ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے، تمھارا رسول کو بلانا۔ اس صورت میں ’’ دُعَآءَ ‘‘ اپنے مفعول کی طرف مضاف ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نام لے کر مت بلاؤ جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر بلاتے ہو، بلکہ یا نبی اللہ، یا رسول اللہ، یا ایسے القاب سے بلاؤ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم ہو اور ایسے لہجے میں مت بلاؤ جس میں تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، بلکہ آواز نیچی رکھ کر ادب کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلاؤ۔ اس معنی کی تائید سورۂ حجرات کی ابتدائی آیات سے ہوتی ہے، فرمایا: ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ﴾ [الحجرات : ۲ ] ’’اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔‘‘ یہ معنی بھی بہت عمدہ ہے۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ تم رسول کی دعا کو عام لوگوں کی دعا کی طرح مت سمجھو۔ کیونکہ آپ کی دعا قبول شدہ ہے، اگر تمھارے حق میں ہو گئی تو اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں اور اگر تمھارے خلاف ہو گئی تو کوئی جائے پناہ نہیں۔ یہ معنی اگرچہ اپنی جگہ درست ہے، مگر آیت کے الفاظ سے بعید ہے۔ 2۔ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ يَتَسَلَّلُوْنَ مِنْكُمْ لِوَاذًا:’’ يَتَسَلَّلُوْنَ‘‘ آہستہ آہستہ خفیہ طریقے سے نکلتے ہیں، کھسکتے ہیں، جیسے ’’ تَدَخَّلَ‘‘ اور ’’ تَدَرَّجَ‘‘ میں آہستہ آہستہ کا مفہوم شامل ہے۔ ’’ لِوَاذًا ‘‘ لَاذَ يَلُوْذُ سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے، ایک دوسرے کی پناہ لینا۔ یہ منافقین کا شیوہ تھا کہ کوئی مسلمان اجازت لے کر نکلتا تو اس کی آڑ لے کر وہ بھی نکل جاتے۔ کھسکنے والوں کو اللہ کی گرفت سے ڈرانا مقصود ہے۔ 3۔ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖ: ’’ خَالَفَ يُخَالِفُ خِلَافًا وَ مُخَالَفَةً‘‘ کا معنی پیچھے رہنا بھی ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ۠ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ﴾ [التوبۃ : ۸۱] ’’وہ لوگ جو پیچھے چھوڑ دیے گئے وہ اللہ کے رسول کے پیچھے اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہو گئے۔‘‘ ’’ يُخَالِفُوْنَ‘‘کے بعد ’’عَنْ‘‘ کی وجہ سے ترجمہ کیا گیا ہے ’’سو لازم ہے کہ وہ لوگ ڈریں جو اس کا حکم ماننے سے پیچھے رہتے ہیں۔‘‘ اس آیت کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ انفال (۲۴، ۲۵) شوکانی نے فرمایا : ’’ يُخَالِفُوْنَ ‘‘ کے بعد ’’عَنْ ‘‘ لانے کا مطلب یہ ہے کہ ’’ يُخَالِفُوْنَ‘‘کے ضمن میں اعراض کا مفہوم شامل ہے، یعنی جو لوگ اس کے حکم سے اعراض کرتے ہیں۔‘‘ زمخشری نے فرمایا : ’’يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖ‘‘ کا معنی ’’يَصُدُّوْنَ عَنْ أَمْرِهِ‘‘ ہے، یعنی جو لوگ اس کے حکم سے دوسروں کو روکتے ہیں۔‘‘ مختصر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے پیچھے رہنے کا نتیجہ فتنے میں مبتلا ہونا ہے۔ طبری نے اپنی معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ سے ابن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل کیا ہے کہ آیت ’’ وَ قٰتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ ‘‘ میں فتنہ سے مراد شرک ہے، یعنی جو شخص جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل نہیں کرتا یا عمل کرنے میں تاخیر کرتا ہے، خطرہ ہے کہ وہ خالص ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور کفر و شرک یا بدعت میں مبتلا ہو جائے گا۔ 4۔ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ : دنیا میں اس عذاب کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں، دیکھیے سورۂ انعام کی آیت (۶۵) کی تفسیر۔ 5۔ اس آیت میں لفظ ’’ اَوْ ‘‘ مانعۃ الخلو ہے، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ فتنے اور عذابِ الیم میں سے کوئی چیز بھی ان پر نہ آئے، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں چیزیں ان پر اتریں۔ 6۔ جب صرف ایک معاملہ میں رسول کی اطاعت نہ کرنے پر یہ وعید سنائی گئی ہے تو ان لوگوں کو اپنے معاملے پر ضرور غور کرنا چاہیے جنھوں نے رسول کو سرے سے اطاعت کا مستحق ہی نہیں سمجھا، بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بے نیاز ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔