وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ جس طرح ان سے بڑے اجازت لے کر داخل ہوا کرتے ہیں، اسی طرح وہ بھی اجازت لے کرداخل ہوں۔ اس طرح اللہ کھول کھول کراحکام بیان کردیتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا،(اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے (٤٤)۔
وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا....: بالغ ہونے کے بعد بچوں کو بھی اجازت لینا ضروری ہے، جس طرح ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جن کا ذکر اس سے پہلے آیت (۲۷) ’’ لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا ‘‘ میں آیا ہے اور جس طرح بالغ ہونے والے ان بچوں سے پہلے دوسرے بالغ لوگ اجازت لیتے چلے آئے ہیں، بالغ ہونے کے بعد انھیں بھی ہر حال میں اجازت لے کر آنا ہو گا۔ عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے پوچھا : ’’کیا میں اپنی بہن کے پاس جانے کے لیے بھی اجازت مانگوں؟‘‘ فرمایا : ’’ہاں!‘‘ میں نے پھر سوال دہرایا : ’’میری پرورش میں میری دو بہنیں ہیں، ان کا خرچہ میرے ذمے ہے، ان کے پاس بھی اجازت لے کر جاؤں؟‘‘ فرمایا : ’’ہاں! کیا تم پسند کرتے ہو کہ انھیں برہنہ حالت میں دیکھو۔‘‘ پھر یہ آیت پڑھی: ﴿يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ﴾ [النور : ۵۸ ] ’’ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ ‘‘ تک، تو ان لوگوں کو صرف ان تین اوقات میں اجازت مانگنے کا حکم دیا گیا، پھر فرمایا: ﴿وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَاْذِنُوْا﴾ [النور : ۵۹ ] ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’اب اجازت لینا واجب ہے۔‘‘ [ الأدب المفرد للبخاري : ۱۰۶۳ ]